عقیدہ توحید اور دفاع پاکستان

شریعت کے مطابق توحید کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی پختہ یقین کے ساتھ اقرار کرے کہ اللہ ایک ہے ہر شے کا مالک اور ربّ ہے وہ اکیلا ہی پیدا کرنیوالا ہے ساری عبادت کے لائق وہ ہی پاکیزہ ذات ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسکے علاوہ تمام معبود باطل ہیں اللہ اوصاف کے لحاظ سے بے مثال ہے اور تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے اور بلند واعلی صفات کا ملک ہے۔شریعت میں عقیدہ توحید بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور ایمان کی اولین شرط ہے۔ اس عقیدے کی درستگی اور یکسوئی انتہائی لازم ہے کیونکہ اگر توحید پر اعتقاد ہی کمزور یا مشکوک ہو تو اس پر اٹھائی گئی عمارت ہی بے بنیاد ہوگی۔ پاکستان کے مذہبی سکالر میاں محمد جمیل عقیدہ توحید کی پختگی اور اسکی اصلاح کیلئے تحریک دعوت توحید کے نام سے شاندار تحریک چلا رہے ہیں انہوں نے پاکستان کے مختلف شہروں میں بیداری کی مہم چلائی ہے- گزشتہ دنوں انہوں نے لاہور میں عقیدہ توحید اور دفاع پاکستان کے موضوع پر ایک کامیاب اور یادگار کانفرنس کا اہتمام کیا- میاں محمد جمیل کی عقیدہ توحید کے ساتھ وابستگی لازوال اور بے مثال ہے انکے بارے میں علامہ اقبال کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے۔
شوق میری لے میں ہے شوق میری نے میں ہے
نغمہ اللہ ہو میری رگ و پے میں ہے
مسلمان ہر نماز میں قل ہو اللہ احد یعنی اللہ ایک ہے اور ایاک نعبد و ایاک نستعین یعنی ہم اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں پڑھتے ہیں مگر اپنی عملی زندگی میں ہم اس قول و اقرار پر عمل کرتے نظر نہیں آتے حالانکہ اللہ تعالی نے توحید اور شرک کے بارے میں قرآن میں بڑے واضح اور دوٹوک ارشادات بیان فرمائے ہیں۔ سورہ النساء کی آیت نمبر 116 میں ارشاد ربانی ہے۔ " اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے اسکے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتاہے جسے وہ معاف کرنا چاہے جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو وہ گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔" سورہ یونس کی آیت نمبر 18 میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔" یہ لوگ انکی پرستش کر رہے ہیں جو انکو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں محمد صلی اللہ ان سے کہہ دیجئے کیا تم اللہ کو اس بات کی خبر دیتے ہو جسے وہ نہ آسمانوں میں جانتا ہے نہ زمین میں پاک ہے وہ اور بالا و برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ "سورہ لقمان کی آیت نمبر 22 میں ارشاد ربانی ہے ۔"جو شخص اپنے آپکو اللہ کے حوالے کر دے اور وہ عملی طور پر نیک ہو اس نے درحقیقت بھروسے کے قابل سہارا تھام لیا اور سارے معاملات کا آخری فیصلہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔"
ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ کیلئے سفر پر جا رہے تھے کہ راستے میں درخت کی چھاؤں میں رک گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلواردرخت پر لٹکا دی ایک کافر آیا اس نے آپ کی تلوار پکڑ لی اور کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو مجھ سے کون بچا سکتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا اللہ بچا سکتا ہے اللہ کا نام سنتے ہی کافر کے ہاتھ سے تلوار نیچے گر پڑی( مسند احمد )علامہ اقبال نے کہا تھا …؎
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
میاں محمد جمیل نے اپنے صدارتی خطبے میں درست فرمایا کہ قبروں اور مزاروں پر جاکر سجدے کرنا قرآن کی رو سے درست نہیں ہے البتہ ان کا احترام اور تقدس اپنی جگہ لازم ہے انکے خیال میں ہر مسلمان کو شرک کی ہر صورت اور ہر شکل سے بچنا چاہیے تاکہ وہ آخرت میں اللہ تعالی کی گرفت سے محفوظ رہے- مفکر اسلام علامہ اقبال نے بھی کہا تھا …؎
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
میرے دادا جان صوفی احمد دین مرحوم قرآن پاک ترجمہ سے پڑھتے رہتے تھے اور میں اپنے بچپن اور لڑکپن میں ان کو ہر وقت قرآن پڑھتے ہوئے دیکھتا وہ قرآن کے مطابق طاغوت پر بہت زور دیتے تھے اور کہتے تھے کہ پاکستان میں ایسے طاغوت یعنی سرغنے وجود میں آچکے ہیں جو خود گمراہ ہیں اور گمراہوں کا ایک ٹولہ انہوں نے اپنے اردگرد جمع کر رکھا ہے -بچپن میں مجھے ان کی بات سمجھ میں نہیں آتی تھی مگر اب مجھے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آنے لگی ہے- حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی سماجی معاشی مذہبی افسر شاہی قبائلی برادری لسانی اور نسلی طاغوت مضبوط اور مستحکم ہو چکے ہیں کہ انہوں نے اپنے آپکو خدا سمجھنا شروع کر دیا ہے ایک شاعر نے کیا خوب کہا …؎
کس کس کے آستاں پہ جبیں کو جھکا ئیں ہم
ہر شخص بن گیا ہے خدا تیرے شہر میں
مفکر اسلام اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے بہترین حل یہ بتایا …؎
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
عقیدہ توحید کا پاکستان کے دفاع کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے اسی لئے افواج پاکستان نے اپنا ماٹو ایمان، تقوی اور جہاد فی سبیل اللہ رکھا ہے جو قرآن کی روح کے مطابق ہے- اسلام کی پہلی جنگ بدر میں مسلمانوں اور کفار کے درمیان مرکزی اور جوہری فرق عقیدہ توحید کا ہی تھا جس کی وجہ سے صرف 313 بے سروسامان مسلمان 1000 طاقتور کفار پر غالب آ گئے تھے - آئی بی کے سابق ایڈیشنل ڈی جی میجر ریٹائرڈ شبیر احمد جو انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں شریک تھے جنرل نصیر اللہ بابر کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ان کاجنگ کے دوران غلطی سے ہیلی کاپٹر بھارتی مورچے کے قریب اتر گیا جنرل نصیر اللہ بابر چونکہ مرد مومن تھے اور توحید کے ساتھ جڑے ہوئے نمازی مسلمان تھے وہ ہرگز خوفزدہ نہ ہوئے بلکہ بڑی جرأت کے ساتھ انہوں نے بھارتی فوج کے سو نوجوانوں کو یہ کہہ کر اپنے آگے لگا لیا کہ وہ پاکستانی فوج کے گھیرے میں آچکے ہیں اور وہ ان کو گرفتار کرنے آئے ہیں۔ یہ معجزہ اللہ تعالی کی نصرت اور تائید سے ہو سکا تھا۔علامہ اقبال نے توحید اور دفاع کے بارے میں اپنی لازوال نظم میں کہا ہے …؎
زندہ قوت تھی جہاں میں یہی تو حید کبھی
آج کیا ہے فقط ایک مسئلہ علم کلام
روشن اس ضو سے ظلمت کردار نہ ہو
خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام
میں نے اے میر سپہ تیری سپہ دیکھی ہے
قل ہو اللہ کی شمشیر سے خالی ہے نیام
آہ اس راز سے واقف ہے نہ ملا نہ فقیہہ
وحدت افکار کی بے وحدت کردار ہے خام
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
تحریک دعوت توحید کے زیراہتمام ہونے والی اس کانفرنس سے جناب لیاقت بلو چ ، بریگیڈئر ریٹائرڈ محمد یوسف، علامہ نعیم بٹ، حافظ ذوالفقار، حافظ یونس آزاد، حافظ شفیق الرحمٰن یزدانی، علامہ ابراہیم‘ مولانا کاشف منظور اور راقم نے خطاب کیا جس میں قابل فخرافواج پاکستان کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کیا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ عقیدہ توحید کی پختگی کے بغیر پاکستان کا اندرونی اور بیرونی استحکام ممکن نہیں ہوگا۔ پاکستان کے عوام اپنی بھادر فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔