چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ ’’جھوٹے گواہوں نے نظام عدل تباہ کر کے رکھ دیا۔ اگر بیان کا کچھ حصہ جھوٹا ہوا، سارا بیان مسترد ہو گا۔ سچ کا سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ گواہ حلف اٹھا کر کہتے ہیں، جھوٹ بولوں تو مجھ پر اللہ کا قہر نازل ہو۔ شاید اللہ کا قہر نازل ہونے کا وقت آن پہنچا ہے‘‘
میکسم گورکی کا کہنا تھا ’’انسان کو چاہیے کہ اپنے لیے ’’سچائی‘‘ خود تلاش کرے، اپنی سچائی خود ڈھونڈے جس سے اس کا دل مطمئن ہو۔ تم چیزوں کو ویسی دیکھو جیسی کہ وہ ہیں۔ ’’لوگ بُرے ہیں‘‘ یہ تو ہوئی سچائی اور اچھے لوگ کہاں ہیں؟ بات یہ ہے کہ اچھے لوگوں کو ایجاد کرنا پڑتا ہے۔ ان کو گھڑنا پڑتا ہے‘‘ بھارت کے معروف شاعر راحت اندوری کی ایک نظم ’’سچ بولو‘‘ سوشل میڈیا پر سنی:۔ …؎
گھر کے اندر جھوٹوں کی ایک منڈی ہے
دروازے پر لکھا ہوا ہے، سچ بولو
گل دستے پر یک جہتی لکھ رکھا ہے
گل دستے کے اندر کیا ہے، سچ بولو
گنگا میں ڈوبنے والے اپنے تھے
ناؤ میں کس نے چھید کیا ہے، سچ بولو
قرآن کریم میں غیب کے مقابل میں شہادت کا لفظ آیا ہے۔ شَھِدَ کے معنے گواہی دینے یا تصدیق کرنے کے بھی ہوتے ہیں اور قسم کھانے کے بھی۔ قرآن کریم کی رو سے پوری کی پوری ملت اسلامیہ شہداء علی الناس ہے یعنی تمام نوع انسانی کے اعمال پر نگاہ رکھنے والی۔ ان سب پر نگران۔ غور کیجئے کہ ملت اسلامیہ کا دنیا میں فریضہ کیا تھا۔ ایک وہ ملت اسلامیہ تھی اور ایک آج ہم ملت اسلامیہ ہیں کہ دوسروں کے اعمال و کردار کے نگران و محاسب ہونا تو ایک طرف، ہم اپنی ذرا ذرا سی ضرورت کے لیے بھی غیروں کے محتاج ہیں۔ اس کا سبب ظاہر ہے۔ وہ ملت، قرآن کریم کو اپنا ضابطہ حیات سمجھتی تھی اور ہم افسانوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔کتِمان (چھپانا) شہادت بہت بڑا جرم ہے۔ سورہ النساء کی آیت 135 کا ترجمہ ہے ’’اے ایمان والو! انصاف پر خوب قائم ہو جاؤ۔ اللہ کے لیے گواہی دیتے چاہے اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو یا ماں باپ کا یا رشتہ داروں کا، جس پر گواہی دو وہ غنی ہو یا فقیر ہو۔ بہرحال اللہ کو اس کا سب سے زیادہ اختیار ہے۔ تو خواہش کے پیچھے نہ جاؤ کہ حق سے الگ پڑو، اور اگر تم ہیر پھیر کرو یا منہ پھیرو تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے‘‘ اور پھر قرآن میں یہ بھی ہے کہ ’’غلط تہمت لگانے والے کی شہادت قبول نہ کرو‘‘۔ پنجابی کے صوفی شاعروں نے بھی سچ کے بارے میں اشعار کہے ہیں۔ بلھے شاہ کی مشہور نظم ہے ؟؟چپ کر کے کریں گزارا‘‘ …؎
چُپ کر کے کریں گزارے نوں
سچ سُن کے لوک نہ سہندے نیں
سچ آکھیے تے گل پیندے نیں
پھر سچے پاس نہ بہندے نیں
سچ مِٹھا عاشق پیارے نوں
سچ شرع کرے بربادی اے
سچ عاشق دے گھر شادی ا ے
سچ کردا نویں ابادی اے
جیہا شرع طریقت ہارے نوں
چُپ عاشق توں نہ ہندی اے
جس آئی سچ سوگندی اے
جس ماھل سُہاگ دی گندھی اے
چھڈ دنیا، کوڑ پسارے نوں
چپ کر کے کریں گزارے نوں
ترجمہ: ایک ایسے معاشرے میں جہاں ظاہر داری کی قدروقیمت حد سے بڑھ چکی ہو، وہاں سچ کہنا اور لوگوں کو یہ بتانا کہ ظواہر حقیقی تسلی نہیں کر سکتے، ایک مشکل کام ہے۔ لوگ ایسے سچ اور سچ کہنے والے کو پسند نہیں کرتے۔ اس مقام پر سچ کے پیرو کے سامنے دو راستے کھلے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ فرد اور معاشرے کی تصنعات کو دیکھتے ہوئے خاموشی سے گزر جائے۔ دوسرے یہ کہ وہ مردانہ وار کلمۂ حق بلند کرے۔ اب شاہ حسینؒ کی کافی ملاحظہ کریں:۔ …؎
میاں گل سنی نہ جاندی سچی
سچی گل سنیوے کیونکر، کچی ہڈاں وچ رچی
سچی گل سنی تناہاں، چننگ جنھاں تن مچی
پڑدا ساڑ دیتو نیں پریتم، دُوت موئے سبھ پچی
زہری ناگ پھرن وچ گلیئیں، جو شوہ لڑ لگی، بچی
کہے حسین سہاگن ساری، جو گل تھیں واندی نچی
ترجمہ: میاں، سچی بات کون سُن سکتا ہے۔ جب ہڈیوں میں جھوٹ رچ بس گیا ہو، پھر سچی بات کیسے سنی جا سکتی ہے۔ جنہوں نے سچ سن لیا ان کے تن بدن میں چنگاریاں جل اٹھیں۔ اے میرے پریتم میرے دشمن میرے چور سبھی کو بے بس کر دیا، برباد کردیا۔ ان گلیوں میں زہریلے ناگ پھر رہے ہیں، ان سے وہی بچ سکی جو محبوب کے دامن سے جا لگی۔ حسین کہتا ہے سہاگن وہی ہے جس نے گلا کٹایا اور ناچ اٹھی۔ آخر میں اپنی ایک پنجابی نظم ’’گل سُنی نہ جاندی سچی‘‘ پیش ہے:۔؎
ہن چُپ کرن دا ویلا نہیں
سچ آکھیاں بھانبڑ مچ دا اے
تے مچے پیا
پیندا اے رولا ، پوے پیا
ہن چپ کرن دا ویلا نہیں
دھنوا ناں اپنیاں بوھیاں تے
ہن پہرے دار کھلارے نیں
ماڑے تے ازلوں ماڑے نیں
ایہناں دیاں سارا کون لوے
آساں دے بوٹے سُک گئے
سدھر دے ساہ وی مُک گئے
پر، ایہناں ماڑیاں لوکاں نے
بلھے دا دامن چھڈنا نہیں
جس چڑھ کے اچ منارے تے
ایہہ حقی ہوکا دتا سی
’’ملاں اتے مثالچی
لوکاں کردے چاننا
آپ ہنیرے نِت‘‘
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024