ہر کہیں نوازشریف پر جوتا پھینکنے کی بات کی خبریت کو قائم رکھنے کے لئے تکلفاً جامعہ نعیمیہ کی بات ہوتی ہے۔ میں پریشان ہوں کہ یہ واقعہ جامعہ نعیمیہ میں کیوں پیش آیا۔ جامعہ نعیمیہ ایک معتدل اور متوازن اقدار کے حوالے سے معروف دینی ادارہ سمجھا جاتا ہے۔
لوگوں نے ہمیشہ اس اسلامی ادارے کو پسند کیا اسے مذہبی اختلافات کے حوالے سے بھی دور رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ جامعہ نعیمیہ کے بانی محمد حسین نعیمی ایک بہت محترم اور باوقار عالم دین تھے۔ میری ان سے ملاقات تھی۔ میں اپنی ایک عزیزہ کی طلاق کے حوالے سے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے پوری بات بڑی توجہ سے سنی۔ چند سوالات اور پھر فتویٰ لکھ دیا۔ میرے لئے وہ بہت محترم ہیں وہ مجھے ذاتی طور پر جانتے تھے۔ مجھے وہ قابل اعتماد عزیز سمجھتے تھے۔ انہوں نے پھر بھی پوری طرح اطمینان سے پہلے ساری بات سنی اور ہر طرح تسلی کرنے کے بعد فیصلہ کیا۔
بڑے نعیمی صاحب کی ذات اتنی محترم اور معتبر تھی اور باوقار تھی کہ ان کی بات کو قابل قدر سمجھا جاتا تھا۔ ان کے صاحبزادے سرفراز حسین نعیمی میرے بہت اچھے دوست تھے۔ وہ بڑے اور دھیمے مزاج کے آدمی تھے میں نے انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی دیکھا۔ وہی اطمینان ان کے چہرے سے جھلک رہا تھا جسے ہم ان سے مل کر ہمیشہ کشادگی محسوس کرتے وہ کسی طرح کی کشیدگی کو پسند نہ کرتے۔ ایک خوبصورت کشادگی ان کے آس پاس رہتی تھی ان سے ملنے والا بہت مطمئن ہو کر رخصت ہوتا۔
میں نے انہیں سائیکل چلاتے ہوئے بھی دیکھا۔ پھر موٹرسائیکل چلاتے بھی دیکھا۔ وہ اس طرح چلتے تھے جیسے اپنی منزل کی طرف جا رہے ہوں۔ ان کی منزل محبت کی منزل تھی۔ عشق رسول کی منزل تھی وہ اسی راستے پر شہید ہوئے وہ اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ وہ حق اور ایمان کے لئے وہ کوئی بھی قربانی دینے کو تیار رہتے۔ وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی ایک مطمئن انسان کی طرح اپنے ملنے والوں کو حوصلہ دیتے۔
عشق رسول کے جذبوں سے بھرے ہوئے دل و جان کے ساتھ انہوں نے زندگی گزاری زندگی کے تمام حلقوں میں ان کی عزت تھی مگر وہ اتنے مضبوط آدمی تھے کہ مخالفین کو انہیں جان سے مارے بغیر چین نہ آیا۔ وہ بہت نفیس اور پسندیدہ آدمی تھے۔ وہ نرے مولوی نہ تھے بلکہ ایک ایسے مسلمان تھے کہ ان کے جیسا بننے کی آرزو دل میں پیدا ہوئی۔
اچانک یہ خبر سنی گئی مگر مانی نہ گئی کہ سرفراز نعیمی صاحب کو کسی نے قتل کر دیا ہے۔ خدا کی قسم وہ سرفراز نعیمی صاحب کو جانتا ہوتا ان سے زندگی میں کبھی ملا ہوتا تو یہ ظلم نہ کرتا۔ ایسے لوگ تو ابھی زندگی کے پیغام کی طرح ہوتے ہیں جن کے ہونے سے زندگی ایک اور زندگی بن جاتی ہے۔ ایک بہت شریف حلیم دوست اور محبت کرنے والے کا قتل ہو جانا ایک عجیب بے چینی دل میں پیدا کرتا ہے۔ ایک بے ضرر آدمی کا شہید ہو جانا ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے۔ نجانے ان میں کتنی طاقتیں بھری ہوئی تھیں۔
ان کے چلے جانے کے بعد ان کے بے مثال فرزند جناب راغب نعیمی نے بڑے اطمینان سے خون میں لتھڑی ہوئی قبا پہنی۔ وہی شام و سحر لوٹ آئے جو جامعہ نعیمیہ کی پہچان ہیں۔
مولانا علامہ راغب نعیمی کے آتے ہی اس ادارے میں نئے ارادوں اور آرزو¶ں کا دائرہ وسیع ہوا۔ راغب نعیمی زندگی کے سب حلقوں میں مقبول ہیں۔ جامعہ نعیمیہ ایک دینی مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ یہاں بہت شاندار اجلاس میں نواز شریف مہمان خصوصی تھے۔ وہ خطاب کے لئے سٹیج کی طرف آ رہے تھے کہ ایک شخص نے ان کی طرف جوتا اچھالا جو ایک جوتا ان کی گردن پر لگا اور نواز شریف نے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد بھگدڑ مچ گئی لیکن اجلاس کے منتظمین نے تین آدمیوں کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ کوئی تو ان سے پوچھے کہ نواز شریف سے الجھنے کے اور بھی کئی طریقے ہیں؟
اس افراتفری کے باوجود نواز شریف نے مختصر خطاب کیا۔ وہ بالکل مطمئن نظر آئے۔ مگر یہ سوچنے کی بات ہے کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا اور جامعہ نعیمیہ جیسے غیر متنازعہ اور شاندار دینی ادارے ہی میں کیوں پیش آیا۔
نعیمی فیملی کے بہت گہرے اور پرانے تعلقات شریف فیملی سے ہیں۔ نواز شریف نااہل ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود راغب نعیمی نے نواز شریف کو اپنے ادارے کے اس بڑے اجلاس میں بلایا۔ یہ کوئی سازش ہے۔ نواز شریف سے زیادہ جامعہ نعیمیہ کے خلاف؟ یہ ادارہ اب زندگی کے تمام حلقوں میں مقبول ہو رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس حاسدانہ اور ناکام واقعہ کے بعد جامعہ کی عزت میں اضافہ ہوا ہے۔
مذہبی اختلاف کے اظہار کے لئے اور بھی کئی طریقے ہیں مگر ہاں ان علما کا کلچر اب مکمل طور پر مولوی کلچر بنتا جا رہا ہے۔ اس کی روک تھام کے لئے مضبوط پالیسی بنانا پڑے گی۔ نواز شریف نے اس افراتفری کے دوران اپنے خطاب میں بڑے اطمینان سے اچھی باتیں کیں۔ انہوں نے جامعہ نعیمیہ زندہ باد کا نعرہ بھی لگایا اور نعیمی فیملی سے اپنے گہرے روابط کا بھی ذکر کیا۔
راغب نعیمی نے نواز شریف سے پہلے بہت اچھے انداز میں خطاب کیا۔ میں نے کل کے کالم میں لکھا تھا کہ یہ واقعہ جامعہ نعیمیہ میں پیش نہیں آنا چاہئے تھا۔ یہ بہت خطرناک روایت ہے اس طرح جلسہ کرنا ناممکن ہو جائے گا اور ہمارا معاشرہ افراتفری کا شکار ہو جائے گا۔ راغب نعیمی بڑی شاندار اور دوست دار شخصیت ہیں۔ ان کے اسلوب حیات سے لوگ متاثر ہوتے ہیں اور ان کے جیسی زندگی کی آرزو کرتے ہیں۔
اے میرے اچھے لوگو اور دوستو! آپ سے گزارش ہے کہ ایک بار راغب نعیمی سے مل کر دیکھو اور ان سے دعا کی درخواست بھی کرو۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024