میاں نوازشریف‘ عمران خاں اور خواجہ آصف کے ساتھ افسوسناک واقعات
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کو گزشتہ روز جامعہ نعیمیہ کی تقریب میں ایک باریش نوجوان نے جوتا دے مارا جو ان کے کندھے پر لگا۔ ملزم محمد ساجد کو جو حجرہ شاہ مقیم کا رہائشی اور لاہور میں امام مسجد ہے موقع پر ہی حراست میں لے لیا گیا جبکہ ادارے کے سکیورٹی گارڈز اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے ملزم کی موقع پر ہی ٹھکائی کی اور پھر پولیس حوالات میں بھی اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس سے قبل وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف پر سیالکوٹ میں جلسے کے دوران ایک باریش نوجوان نے سیاہی پھینک دی جس سے ان کے چہرے‘ بالوں اور لباس پر سیاہی کے دھبے پڑ گئے۔ اسی طرح گزشتہ روز فیصل آباد میں پی ٹی آئی کی رکنیت سازی کی مہم کے دوران ایک شخص نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خاں پر بھی جوتا مارنے کی کوشش کی تاہم وہ جوتا مارنے سے پہلے ہی پی ٹی آئی کے کارکنوں کے قابو آ گیا جنہوں نے اس کی خوب دھنائی کی اور پھر پولیس کے حوالے کر دیا۔
پانامہ کیس میں سپریم کورٹ سے میاں نوازشریف کی نااہلیت کا فیصلہ صادر ہونے کے بعد حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں میں محاذ آرائی کی سیاست سے جس سرعت کے ساتھ سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوا اس سے ملک میں انتشار اور خانہ جنگی کے خطرات سروں پر منڈلاتے نظر آ رہے تھے۔ بالخصوص میاں نواز شریف کے لئے عوام میں پیدا ہونے والی ہمدردیوں سے اپوزیشن جماعتوں کو فکر لاحق ہوئی کہ اس فضا میں آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گا چنانچہ انہوں نے بھی سیاسی محاذ آرائی بڑھانے والا راستہ اختیار کر لیا جس سے عام آدمی کو بھی یہ امر نوشتۂ دیوار نظر آ رہا تھا کہ بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی میں بالآخر تشدد کا عنصر بھی شامل ہو جائے گا۔ اس تناظر پر گزشتہ دو روز کے دوران سیاسی قائدین کے ساتھ جو واقعات رونما ہوئے ہیں وہ اپنی جگہ افسوسناک اور تشویشناک تو ہیں ہی مگر یہ فضا ملک میں خانہ جنگی کی گھنٹی بجا رہی ہے جس سے سسٹم کی بقاء بھی خطرات میں گھری نظر آ رہی ہے۔ اگر ملک میں شائستگی اور سلجھاؤ کی سیاست مقصود ہے تو پھر تمام قومی سیاسی قائدین کو مخالفت برائے مخالفت والی سیاست کو اس نہج تک نہیں لے جانا چاہئے کہ اس میں ذاتی دشمنی کا عنصر شامل ہو جائے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ عمران خاں‘ سید خورشید شاہ‘ اسفند یار ولی‘ سراج الحق اور دوسرے تمام قومی سیاسی قائدین نے میاں نواز شریف پر جوتا مارنے کے واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انہیں محض مذمت پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنے اپنے کارکنوں کی اس بنیاد پر تربیت بھی کرنی چاہئے کہ سیاست میں تشدد اور ذاتی دشمنی کا عنصر شامل نہ ہونے پائے۔ اگر ایسے واقعات کا اعادہ شروع ہو گیا تو پھر کسی کا بھی گریبان اور پگڑی محفوظ نہیں رہے گی جبکہ خانہ جنگی کی اس فضا میں خدانخواستہ کوئی بڑا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ سیاسی نظریات اور مذہبی جذبات کا اظہار اپنی جگہ مگر اس کی آڑ میں سیاست اور سسٹم کو خراب نہیں ہونے دینا چاہئے۔