منگل ‘ 24؍ جمادی الثانی 1439 ھ ‘ 13؍ مارچ 2018ء
گوجرانوالہ جلسے میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے پہلوان کو چت کر دیا۔
میاں شہباز شریف کے ہر فن مولا ہونے میں اگر کسی کو کچھ شک سا تھا تو وہ بھی اب دور ہو گیا ہو گا۔ اعلیٰ سیاستدان، شعر و ادب کے دلدادہ، پرجوش شخصیت، انتھک محنتی، علمی و عملی لوگوں سے محبت کرنے والے، نوجوان طلبہ و طالبات میں مقبول تو وہ پہلے ہی سے تھے، اب انہوں نے گوجرانوالہ میں جسے پہلوانوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے جلسہ عام میں جس طرح فری سٹائل ریسلنگ کا مظاہرہ کرکے سٹیج کو رنگ میں بدل دیا اس کی داد بھی سب دے رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف نے ملاقات کے لئے آئے پہلوانوں کے وفد کے قائد کو فرط محبت سے ایسا دھوبی پٹڑا دیا کہ وہ بھی میاں صاحب کے دائو کو نہ سمجھ سکا۔ فوراً ہی اس سے پہلے کہ پہلوان جوابی وار کرتا میاں صاحب نے اسے گلے سے لگا لیا۔ تو پہلوان نے بھی خوب زور سے جپھی ڈالی مگر معاملہ بچ بچائو کا ہی رہا۔ پہلوانوں کی طرف سے وزیر اعلیٰ پنجاب کو گرز تحفے میں دیا گیا۔ جلسے میں ان کی دستار بندی بھی کی گئی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اہلیان گوجرانوالہ کے پرجوش استقبال سے خوش ہو کر وہاں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا بھی اعلان کیا۔ اہلیان گوجرانوالہ کو اپنے وزیر اعلیٰ کا یہ دلچسپ اور عوامی انداز تادیر یاد رہے گا۔ ورنہ سب لوگ تو انہیں زاہد خشک مزاج ہی سمجھتے تھے۔ اب انہیں بھی پتہ چلا ہو گا کہ میاں جی تو اچھے خاصے شوخ طبع بھی ہیں۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
دریائوں کا عالمی دن کل منایا جائے گا۔
دریا زمین پر انسان کے سب سے پرانے دوست ہیں۔ بڑی بڑی تہذیبوں نے دریائوں کے کنارے جنم لیا بڑی بڑی آبادیاں دریائوں کے کنارے آباد ہوئیں۔ دریا صرف زمین کی زرخیزی نہیں بڑھاتے۔ اسے زندہ بھی رکھتے ہیں۔ انسانوں کی زندگی کا دارومدار ہوا کے بعد پانی پر ہے۔ یہ دریا انسانی بقا و زندگی کو قائم رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ہم اس خوش نصیب ملک میں آباد ہیں جہاں ایک نہیں کئی دریا بہتے ہیں۔ حکمرانوں کی نااہلی کے باعث 3 دریا بھارت کے حوالے کئے جا چکے ہیں دو دریا ہمارے پاس ہیں سندھ اور جہلم یہ تو بڑے دریا ہیں ان کے علاوہ کئی چھوٹے چھوٹے دریا ملک کے مختلف صوبوں میں رواں دواں ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم ان کا تحفظ کریں، ان کے پانی کو بچائیں ان دریائوں میں جو آبی حیات پل رہی ہے ان کو تحفظ دیں، ہم نے اپنے دریائوں کی طرف سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ہمارا دشمن بھارت ہمارے حصے کے دریائوں پر بھی بند باندھ کر ان کا پانی روک رہا ہے۔ ہم نے اپنے دریائوں کے کنارے آباد بڑے بڑے شہروں یا چھوٹے شہر، کا گندا پانی اور صنعتی آلودہ پانی براہ راست ان دریائوں میں پھینکا جاتا ہے۔ یوں یہ صاف ستھرے دریا اب گندے نالوں میں بدل رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت دریائوں کو آلودہ کرنے والوں ان کے اردگرد زمینوں پر قبضہ کرکے ان کے بہائو میں رکاوٹ بننے والوں کے خلاف سخت ترین ایکشن لے۔ ان دریائوں کے کنارے جنگلات لگائے جائیں، تفریحی پارک بنائے جائیں تاکہ لوگ پہلے کی طرح ان دریائوں کے کنارے تفریح کرنے جا سکیں۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
مسلم لیگ (ن) کا راولپنڈی میں سوشل میڈیا کنونشن فلاپ شو ثابت ہوا: شیخ رشید
اب اگر شیخ جی کی نظر کمزور ہو گئی ہے تو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ فوارہ چوک پر لوگوں کا ہجوم تو کوئی اور کہانی بیان کر رہا ہے۔ شیخ صاحب اسے فلاپ شو کہہ کر اپنا دل ٹھنڈا کر رہے ہیں تو کرتے رہیں۔ ویسے بھی وہ ایسے بیانات صرف اخبارات میں شائع ہونے کے لئے دیتے رہتے ہیں۔ راولپنڈی والے بخوبی جانتے ہیں کہ یہ میڈیا شو کیسا رہا۔ اب اس کے باوجود اگر کوئی نہ مانے تو مسلم لیگ والے بھی…؎
اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
والا پرانا شعر کہہ کر اپنی تسلی کر سکتے ہیں۔ فوارہ چوک سے نکلنے والی ایک سڑک لیاقت باغ کو بھی جاتی ہے جہاں بڑے بڑے سیاستدان جلسے کرتے رہے ہیں۔ راولپنڈی کے عوام نے اس تاریخی باغ میں دو وزیراعظموں کو شہید ہوتے دیکھا ہے۔ اب بھی اگرچہ اس باغ میں جلسے ہوتے ہیں مگر اس کو پُر کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ اگر مریم صاحبہ کو امید ہوتی کہ یہ میڈیا شو اتنا کامیاب ہوگا تو وہ نہایت اہتمام سے یہ شو لیاقت باغ میں بھی کرا سکتی تھیں۔ اتنی رونق تو وہاں بھی اچھی لگتی۔ اب شیخ جی کی قسمت ہے کہ ان کے ذاتی جلسے گلی محلے کی کارنر میٹنگ جتنے بھی نہیں ہوتے جس کی وجہ سے وہ دوسروں کے جلسوں میں جا کر اپنا تقریری شوق پورا کر لیتے ہیں۔ اگر ان میں واقعی دم خم ہے تو خود فوارہ چوک میں فوری طور پر جوابی جلسہ کرکے مریم صفدر کا ریکارڈ توڑ دیں۔ انہیں کس نے روکا ہے۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
پاکپتن: شادی کی تقریب میں باراتیوں کا تصادم، چمچوں، پراتوںاور بوتلوں کا آزادانہ استعمال۔
شادی کی تقریبات میں عام طور پر باراتیوں کے ساتھ مذاق کرنے یا حق مہر اور جہیز وغیرہ کے معاملے پر آپس میں سر پھٹول ہو جاتی ہے۔ گرما گرمی کا یہ ماحول رشتہ داروں کی مداخلت کے باعث مکمل جنگی ماحول بننے سے بچ جاتا ہے۔ تاہم کئی مقامات پر فسادات بھی رونما ہوتے ہیں۔ اب پاکپتن میں بھی دونوں بہنوں کی شادی میں ایسی ہی جنگ شروع ہوئی جس میں باراتیوں نے ہتھیار کے طور پر ایک دوسرے پر چمچوں بوتلوں اور پراتوں کا آزادانہ استعمال کیا۔ جس کے نتیجے میں 6 افراد ہسپتال کی سیر کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے یہ دونوں بہنوں کی بارات میں شامل باراتیوں کی باہمی خانہ جنگی تھی۔ مگر یہ نوبت کیوں آئی اس پر راوی خاموش ہے۔ اب معلوم نہیں کس دلہن کے باراتی اس جنگ میں کامیاب رہے۔ لڑکی والوں کے لئے مشکل ہو رہا ہو گا کہ وہ کس بارات والوں کو برحق کہیں اور کس کو قصوروار ٹھہرائیں۔ اب تو پاکستان میں بھی یورپ کی طرح شادی بیاہ اور پارٹیوں میں کاغذی کراکری استعمال کرنے پر غور کرنا پڑے گا تاکہ ایسی کسی ہنگامہ آرائی والی صورتحال میں کوئی زخمی ہو کر ہسپتال کی سیر پر مجبور نہ ہو۔ ویسے گھریلو لڑائیوں میں تو توا، بیلن وغیرہ کا استعمال سنا تھا یہ پراتوں اور چمچوں کا استعمال پہلی بار سامنے آیا ہے۔