مرتے وقت انسانی دماغ کے خلیے موت سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں: طبی تحقیق
لندن (بی بی سی) مرتے وقت کسی کے دماغ میں کیا ہوتا ہے؟ بعض سائنسدانوں نے حال ہی میں ایک تحقیق کی ہے جس سے نیورو سائنس کے بارے میں دلچسپ معلومات ملتی ہے۔ یہ تحقیق جینز ڈرائر کی سربراہی میں کام کرنے والے برلن اور اوہائیو کی سنسناٹی یونیورسٹی اور چیریٹی یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کی ہے۔ سائنسدانوں کو معلوم ہوا ہے کہ موت کے وقت انسانوں اور جانوروں کا دماغ ایک ہی طرح کام کرتا ہے۔ مرتے وقت جسم میں خون کی گردش رک جاتی ہے اور اس کی وجہ سے دماغ میں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے۔ یہ صورتحال جسے سریبرل اسکیمیا کہا جاتا ہے، میں کیمیائی اجزا کم ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے دماغ میں ’الیکٹریکل اکٹیویٹی‘ مکمل طور پر خارج ہو جاتی ہے۔ سائنسدانوں کو معلوم ہوا کہ نو میں سے آٹھ مریضوں کے دماغ کے خلیے موت سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہیں معلوم ہوا کہ دماغ کے خلیے اور نیورونز دل کی دھڑکن رک جانے کے بعد بھی کام کر رہے تھے۔ اس کے لیے خلیے گردش کرنے والے خون کا استمعال کرتے ہیں اور اس سے کیمیکل انرجی اور آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق جب جسم مر جاتا ہے اور دماغ میں خون کا بہاؤ رک جاتا ہے تو مرنے والے نیورون بچی توانائی کو استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ الیکٹرو میکینیکل توازن کی وجہ سے دماغ کے خلیے تباہ ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے تھرمل انرجی نکل جاتی ہے اور اس کے بعد انسان مر جاتا ہے۔ لیکن تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ موت آج جتنی طاقتور ہے ضروری نہیں کہ مستقبل میں بھی اتنی ہی ہو۔