نوابزادہ نصراﷲ خان مرحوم اور مخدوم جاوید ہاشمی
نوابزادہ نصراﷲ خان مرحوم اس ملک کے ایسے منفرد سیاستدان تھے کہ جن کا سیاسی اثر و رسوخ انتہائی اعلیٰ مقام کا حامل تھا اور بلاشبہ سابق صدر آصف علی زرداری نے پچھلے دنوں ان کی کمی کو شاید شدت سے محسوس کرتے ہوئے کسی اور کے بارے اس کمی کو پورا کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ نوابزادہ صاحب کا پاکستانی سیاست میں مقام اور گرفت حزب مخالف کو یکجا کرنے میں جادوئی نوعیت کا نظر آتا ہے۔ مرحوم میں یہ صفت اعلیٰ درجہ کی تھی کہ وہ اپوزیشن کے ایک ایک تنکا کو اکٹھا کرنے میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ ملک میں جرنیلی حکومت ہو یا جمہوری جبر کی پیدا کردہ فضا قائم ہو‘ نوابزادہ اس گھٹن زدہ ماحول کو بہتر کرنے کیلئے عوامی جدوجہد کے ایسے ایسے طریقے اپناتے کہ عقل دنگ رہ جاتی اور ان کی پیدا کردہ جدوجہد کے راستہ سے حزب مخالف اکٹھی ہو کر اپنا کردار ادا کرتی اور پھر تازہ ہوا کا جھونکا ایسا چلتا کہ ہر طرح کا آمر بے بس ہو جاتا۔ جنرل ایوب کے خلاف بھی لڑے پھر ذوالفقار علی بھٹو کے نام نہاد جمہوری دور کے ظلم و ستم کے خلاف بھی سیسہ پلائی دیوار بنے اور حزب مخالف کو اکٹھا کیا۔ بظاہر پاپولر اکثریت نہ ہونے والی سیاسی جماعت کے سربراہ کے طور پر تمام بڑی پارٹیوں کو ایک مقصد کے حصول کیلئے ہمیشہ اکٹھا کرنا اور فیصلہ کن کردار ادا کرنا ان کا ہی خاصہ رہا۔
سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کے نوابزادہ بارے بیان نے مجھے ماضی کا ایک واقعہ یاددلا دیا۔ غالباً 1990 ء کے عشرہ کی بات ہے ۔ میں اپنی ملازمتی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ملتان ائرپورٹ کے وی آئی پی لاؤنج میں ڈیوٹی پر موجود تھا۔ ملتان ائرپورٹ کے پرانے ٹرمینل کا وی آئی پی لاؤنج کسی مرمتی کام کیلئے بند تھا اور اسکی بجائے اس لاؤنج کے داخلی دروازہ کے باہر پی آئی اے کاایک آفس جو کہ ماضی میں ایس ایم آفس تھا اسے عارضی طور پر وی آئی پی حضرات کیلئے استعمال میں لایا جا رہا تھا۔ اس دن جو بھی وی آئی پی سفر کیلئے پہنچتا اسے اسی دفتر میں بٹھایا جاتا۔ اتفاق سے اس دن نوابزادہ صاحب اور جاوید ہاشمی دونوں ایک ہی فلائٹ پر سفر کر رہے تھے۔ دونوں قد آور شخصیات اسی دفتر میں موجود تھیں اور ان کی چائے سے تواضح جاری تھی ۔ جاوید ہاشمی احترام کے اعلیٰ جذبوں کے ساتھ نوابزادہ سے محو گفتگو تھے۔ نوابزادہ کی طبیعت کچھ علیل ہی نظر آرہی تھی۔ علالت کا اظہار ان کی جسمانی حالت سے ظاہر تھا۔ علالت بارے ان کے اپنے اظہار پر موجود افراد دل گرفتہ بھی ہوئے اور جاوید ہاشمی سمیت سب نے علالت پر تشویش کا اظہار اور جلد صحت یابی کی امید کی اور جاویدہاشمی نے کہا آپ کی قوم کو ضرورت ہے۔ نوابزادہ نے کہا ہم چراغ سحری ہیں اور آپ جیسے جوان حزب مخالف کی سیاست کو آگے ضرور بڑھائیں گے۔ اس لمحہ جاوید ہاشمی نے تیقن اور سپاٹ لہجے میں یہ بھی کہا ہم آپ کی جلائی ہوئی مشعل کو بجھنے نہیں دیں گے اور میں حزب مخالف کی سیاست کو حرزجاں بناؤں گا۔ نوابزادہ نے مسکراہٹ کے ساتھ اس اقرار کی تائید کی۔ بلاشبہ ملک کے گھٹن سے بھرے موجودہ سیاسی ماحول کو نوابزادہ جیسے جاندار کردار ادا کرنے والی شخصیت کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔
جاوید ہاشمی زمانہ طالب علمی میں ایمرسن کالج میں ناموری حاصل کر کے اسلامی جمعیت طلبہ کے سہارے سے پنجاب یونیورسٹی پہنچا اور بھٹو مخالف تحریک میں اپنے اجلے کردار سے طلبہ کا ہیرو قرار پایا اور ملکی شہرت کا حق دار ٹھہرا۔ بھٹو حکومت کے خاتمہ پر جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں وزارت کا حلف اٹھایا۔ 1985 ء کے غیر جماعتی انتخابات میں پارلیمنٹ میں پہنچ کر سید فخر امام کے سپیکر کے انتخابات میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اور اس انتخاب میں حکومتی چھتری والے امیدوار کو شکست ہوئی تھی۔ اسکے بعد جاوید ہاشمی کوچہ شریفاں کا باسی بن گیا۔ وزیر بھی بنا اور اقتدار کی غلام گردش سے لطف اندوز بھی ہوا۔ اسی سیاسی جماعت میں رہتے ہوئے کابینہ میں چودھری نثار علی خاں سے سیاسی رفاقت کے باوجود چشمک بھی رہی۔ 1999 ء میں حالات نے پلٹا کھایا۔ پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور نوازشریف پر مقدمات بنے۔ پھر نوازشریف مع فیملی اور ملازمین اپنی جان بچا کر عازم جدہ ہوئے تو جاوید ہاشمی کو ڈوبتی کشتی کا ناخدا بنا گئے کیونکہ یہی شخص ہی طوفانی تھپیڑوں کو سہنے کا حوصلہ رکھتا تھا۔ اس نے خوب مقابلہ کیا۔ مشرف دور کی قید و بند جھیلنے کے بعد اس کا قد کاٹھ بلندی پر پہنچ گیا اور یہ عام ممبر قومی اسمبلی سے وقار اور شہرت کے اعلیٰ مقام پر پہنچ گیا۔ مشرف دور کا طنطنہ ختم ہوا تو نوازشریف بھی واپس آئے اور اپنی عاریتاً دی ہوئی گدی کو جاوید ہاشمی سے واپس لے لیا۔ جاوید ہاشمی سیاست کا شہسوار ہی رہا لیکن نوازشریف نے بھی اسے سیاسی انداز سے دیوار سے لگائے رکھا اور جس مقام و مرتبہ کا یہ خواہاں اور حقدار تھا اسے نہ دیا گیا۔دلوں میں دوریاں بڑھ گئیں۔ بدلتے سیاسی حالات و واقعات اور مقام مطلوبہ کے حصول میں حائل رکاوٹوں‘ کدورتوں‘ سازشوں کی وجہ سے تناؤ کے زیر حملہ ہونے سے علالت نے آجکڑا اور زندگی کے لالے پڑ گئے۔ آخر کار امریکہ میں دوستوں کے تعاون سے زیر علاج رہ کر صحتیابی نصیب ہوئی۔ گو پہلے جیسی سرعت اور پھرت نہ رہی لیکن دماغی اندازِ سیاست موجود و برقرار رہا۔ کشمکش حصول مقام و مرتبہ کی طوفان خیز کشیدگی کے بعد جاوید ہاشمی نے عمران خان کا ہاتھ تھام لیا اور باغی کے نام اور الفاظ کو تواتر کے ساتھ استعمال میں لاتے ہوئے یہ ’’باغی‘‘ کہلانے لگا۔ یہاں بھی اس کادماغِ ہیجان خیز سکوں نہ پا سکا اور اسے بھی خیر باد کہا۔ لیکن عمران خان کو خیرباد کہنے کے بعد اپنے پہلے کوچہ بسیرا میں آشیانہ سازی کی خواہش اور تمنا میں عمران خان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی جو کہ ابھی جاری ہے اور ان کے الفاظ کو نون لیگی اپنے لئے سیاسی ڈھال کے طور پر بار بار دہراتے ہیں۔
میرے نزدیک تحریک انصاف میں شامل ہونے سے پیشتر جاوید ہاشمی یک و تنہا بھی علم جمہوریت کو تھام کر حزب مخالف کو متحرک و منظم کرتے تو یقیناً وہ اپنی صلاحیتوں سے ملک اور سیاست کو مفاد عظیم پہنچانے کا سبب بنتے لیکن اب وہ خاندان شریف کا ساتھ دیکر پرویزرشید اور رفیق رجوانہ وغیرہ کی صف میں شامل ہو چکے ہیں۔ اب اسے اپنا مقام مزید اونچا کرنے کیلئے دانیال عزیز وغیرہ کو پیچھے چھوڑنا پڑے گا۔ گردشی اطلاعات کے مطابق جاوید ہاشمی شہبازشریف کی فہرست ناپسندیدگی میں شامل ہے اور اب جبکہ نوازشریف ماضی اور شہبازشریف ن لیگ کا مستقبل کا دولہا بن چکا ہے اور اس تناظر میں جاوید ہاشمی اس کارواں میں کس مقام پر ہو گا یہ اس کے خود سوچنے کا سوال ہے؟