ابن خلدون کے کپڑے
زندگی کے گذشتہ 40 برسوں میں جس صاحب الرائے اور اصلاح کار انسان کی تحریروں کے حسن اور گہرائی نے مجھے گھیر ے رکھا وہ جناب مختار مسعود ہیں،اللہ ان کو کروٹ،کروٹ جنت نصیب کرئے،ان سے کبھی نہ مل سکا جس کا قلق آخری سانس تک رہے گا،خود کو ملامت کرتا رہتا ہوں،وہ پاس ہی لاہو رہے ،بیسیوں مرتبہ گیا،لیکن ان سے ملنے کی تمنا پوری نہ کرسکا ،شاید اپنی بے مائیگی اور عامیت آڑے آتی رہی،ان کا اجنبی پرستار بنا رہا، بھلا وقت بھی کسی کا ہوا ہے،ہم جو بہت سی قلتوں کے ساتھ قحط الرجال سے بھی دوچار ہیں،اب ان جیسے انسان بھی نہ رہے،لیکن وہ جو لکھ گئے اور جو فکر کا ورثہ دے گئے ،اس میں نصیحت اور عبرت کے لئے بہت کچھ ہے ،بس سوچ اور دل ہونا چاہئے،ان کی آخری کتا ب’’ حرف شوق‘‘ہے،جو زیر مطالعہ رہی،یوں تو کتاب علی گڑھ اور مسلم یونیورسٹی جہاں مصنف نے تا دیر تعلیم حاصل کی تھی کے ذکر پر مبنی ہے مگر دراصل یہ پاکستان کے لئے جدوجہد کا بالواسطہ بیان ہے ،آذادی ملنے کے بعد کی باتیں بھی ہیں،لکھتے ہیں،’’ایک بار ابن خلدون پر ایسی افتاد پڑی کہ الامان و الحفیظ،سلطان مغرب عبدالعزیز کے انتقال کے بعد جانشینی کے جھگڑے میں ابن خلدون نے جس کا ساتھ دیا تھا وہ ہار گیا،جان بچانے کے لئے وہ بھاگنے پر مجبور ہو گئے،جیتنے والے کے حامی قبائل نے محالف گروہ کے فرار ہونے والے افراد کو راستہ میں جالیا اوران کو بہت خراب وخوار کیا۔ان کی مٹی پلید ہوئی۔ان میں عبدالرحمان ابن خلدون بھی تھا،لوٹ کھسوٹ حد انتہا تک مکمل تھی،مال ودولت لوٹنے کے بعدمخالفین نے علامہ ابن خلدون کے کپڑے بھی اتروا لئے۔وہ لباس کے بغیر پا پیادہ جبل وبدو کی طرف نکل بھاگے۔دو دن کے بعد آبادی میں پہنچے،ستر پوش ہوئے،اور ساتھیوں سے جا ملے،قدرت بعض معاملات میں بڑی بے لحاظ ہوتی ہے۔موقع ملے تو افراد ہی نہیں بلکہ قوموں اور ملکوں کے کپڑے بھی اتروا لیتی ہے ،اگر حافظہ اور حوصلہ ساتھ دے تو 16دسمبر1971 کو یاد کرلیں‘‘،جناب مختار مسعود نے ابن خلدون کو واقعہ بیان کر دیا اور ایک نتیجہ کی جانب اشارہ بھی کر دیا ،میری دانست میں نعمت کی ناقدری، غفلت،عاقبت نااندیشی ،اجتماعیت کے فقدان،بزدلی اورہوس کے منطقی انجام سے خبردار کیا،جن کے بارے میں قدرت کے اصول اٹل ہیں،16دسمبر کو کسی نے کیا یاد کرنا ہم تو اس تاریخ کو اپنی تا ریخ میں سے حذف کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں ،ہم اس کو بھول جانا چاہتے ہیں ،تاکہ پھر وہی دہرا سکیں جو 1971ء تک کیا تھا، لیکن سبق کو یاد کرنے والا ہی کامیاب ہوتا ہے اس کے بھلانے والے کا رزلٹ ناکاموں کی فہرست میں درج کر دیا جاتا ہے،آج کی بھانت بھانت کی بولیوں کو دیکھیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ناکام ہی رہنا چاہتے ہیں،اداروں کے خلاف مہم کا انجام کیا نکلے گا ،اس بارے میں سوچا نہیں جارہا،ابتلاء میں کون گرفتار نہیں ہوا؟اس وقت نے گذر جانا ہے ،مگر اس منفی سوچ کی ابتداء کرنے والے کل اس کے انجام سے بچ نہ پائیں گے،کسی بھی ملک میں ادارے ہی اس کی مضبوط بنیاد ہوا کرتے ہیں ،ترکی میں کسی زمانے میں بلند ایجویت اور سلمان ڈیمرل کے درمیان اقتدار کا میوزکل چئیر گیم چلتا رہا ،استحکام اس وقت آیا جب قیادت نے خود کو عوام کی سوچ کے ساتھ ہم قدم کیا،جب ایشو آیا تو عوام خود باہر نکل آئے،لیکن یہاں ہیجان پیدا کیا جارہا ہے،ہیجان منزل شناس نہیں ہوتا اور اس کے غلط رخ پر جانے کا حقیقی خطرہ ہوتا ہے،لیبا اور بہت سے دوسرے ممالک میں جہاں عرب بہارکی لہر آئی تھی آج اس ہیجان نے کیا دیا سوائے آگ اور خون کے،اس لئے سوچ لیں اور عقل کا دیا جلا لیں اس سے راستہ مل سکتا ہے،ورنہ وہی ہوگا کہ جو ہوتا آیا ہے ،فناشیل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو ’’گرئے لسٹ ‘‘ میں ڈال دیا ،سب کو پتہ ہے کہ اس کا اصل مقصد کیا ہے ، اوردنیا میںکن، کن کو ملک میں کس سے تکلیف ہے، اور وہ اصل میں کیا چاہتے ہیں، گرے لسٹ میں آجانے کے اگرچہ فوری اثرات تو نہیں ہیں،مگر یہ ایک لٹکتی تلوار کی طرح ہے،حکومت کو ایک ایکشن پلان تیا کر کی پیرس بھیجنا ہو گا اور اس کی فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس کی منظوری لینا ہو گی،جس کے بعد پلان پر عمل کیا جائے گا،اس سارے عمل میں کافی وقت لگتا ہے جو کئی ماہ پر محیط ہو گا ،اس معاملہ کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے،یہ افسوس ناک ہے کہ سلامتی کونسل کی قرار داد 2000ء کی ہے اور اس پر عمل کے اقدامات حالیہ پیرس اجلاس سے چند دن قبل اٹھائے جا رہے تھے،پہلے تو حکومت نے اس معاملہ کو ’’گول مول‘‘ کرنے کی کوشش کی،جب یہ دیکھا ’’دوسروں ‘‘ کا منہ بند کرنا ممکن نہیں تو پھر برسوں کا کام چند دن میں کرنے کی کوشش کی جو ہر گز کامیاب نہیں ہو سکتی تھی،اس صورتحال کے ا صل ذمہ دار سابق وزیر خزانہ ہیں ، جنہوں نے وقت پر چیزوں کو نہیں کیا،اب اپنی لڑائی میں ملک کا نقصان نہ کیا جائے،تمام وزارتیں جن کے ذمہ کام ہیں اس کو سر انجام دیں،کیونکہ ملک بلیک لسٹ میں آ جانے کے خطرے سے دوچار ہے،جس ملک متحمل نہیں ہو سکتا ہے، بجٹ کا اعلان 27 اپریل کو کیا جائے گا ، حکومت کو اسے الیکشن بجٹ بنانے سے گریز کرنا چاہئیے، خسارہ پہلے ہی قابو میں نہیں ہے،قرضے بہت بڑھ چکے ہیں،حکومت کی فنانشیل مینجمنٹ کا پول پہلے کھل چکا ہے، بجٹ میں الیکشن کو سامنے رکھتے ہوئے مقبول فیصلے کرنے کا خدشہ ہے ،کالا دھن اور پراپرٹی ظاہر کرنے کا موقع بھی دیا جائے گا ، تاہم جو بھی کیا جائے ملک کی پتلی مالی صورتحال کو پیش نظررکھناضروری ہے ،قدرت کا تحفہ یہ ملک ہے،اس کا لحاظ رکھنا اور اس کا خیال کرنا فرض بنتا ہے،1971ء کو نہ بھولیں،اس کو تاریخ کے سبق کے طور پر یا د رکھیں،ریاست کو سیاست کے ساتھ گڈمڈ نہ کیا جائے،ریاست سب کی ہوتی ہے،کوئی بالا تر محب وطن نہیں ہے،کسان ہے یا ریڑھی بان،سپاہی ہے یا منصف سب کی ملک سے محبت ایک جیسی ہوتی ہے،بس سب قدرت کے عطیہ کا لحاظ کریں اور اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کریں۔