راجہ فاروق حیدر… کشمیر کے معمار
آزادکشمیر میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت جولائی 2016 میں قائم ہوئی تو حکومت کو جن بڑے چیلنجز کا سامنا تھا ان میں 22 ارب روپے کا بجٹ خسارہ، ریاست کے انتظامی اداروں کی ناگفتہ بہ صورتحال، ریاست کا تباہ حال انفراسٹرکچر اور سابق حکومت کی جانب سے سیاسی ایڈجسٹمنٹس کی بھرمار کی وجہ سے لیگی کارکنوں کی ایڈجسٹمنٹس کا دباؤ، یہ ایسے چیلنجز تھے جن سے نبردآزما ہونا آسان کام نہ تھا۔ ان حالات میں حکومت کیلئے فوری اور سخت اقدامات اٹھانا بہت بڑا چیلنج تھا۔ علاوہ ازیں مجید حکومت میں پیپلز پارٹی کے تمام اراکین اسمبلی کو وزارتیں دی گئی تھیں جس کی وجہ سے فاروق حکومت پر بھی دباؤ تھا کہ تمام لیگی اراکین اسمبلی کو بھی وزارتیں دی جائیں۔راجہ فاروق حیدر نے سب سے پہلے مختصر کابینہ بنانے، سیاسی ایڈجسمنٹس نہ کرنے اور بچت سکیم اپنانے کا اعلان کیا اور ایک خاص حکمت عملی کے تحت لیگی کارکنان کو حکومتی امور سے دور کیا گیا تاکہ حکومت مکمل یکسوئی کے ساتھ چیلنجز کا سامنا کر سکے۔ پہلے مرحلے میں 9 وزراء پر مشتمل وزیراعظم نے اپنی کابینہ کا انتخاب کیا جبکہ کوارڈنیٹرز، مشیران اور ایڈمنسٹریٹرز تعینات نہ کرنے کا فیصلہ کر کے اپنے گھر سے بچت کرنے کا فیصلہ کیا اور انتظامی اور ترقیاتی و بلدیاتی اداروں پر بھی مستقل سربراہان کا تقرر نہ کیا گیا بلکہ ڈپٹی کمشنرز اور کمشنرز کو اضافی چارج دیکر ان اداروں کا انتظام چلانے کا فیصلہ کیا گیا جس سے حکومت نے پہلے چھ ماہ میں بجٹ خسارہ نصف کے قریب کم کر کے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ دوسری جانب راجہ فاروق حیدر نے وزیراعظم پاکستان(وقت) میاں نواز شریف کے ساتھ ریاستی تعمیر و ترقی کے مسائل اٹھائے اور ترقیاتی بجٹ دگنا کرنے کا مطالبہ کیا جسے منظور کر کے ریاست کا ترقیاتی بجٹ 11 ارب سے بڑھا کر 22 ارب روپے کیا گیا جبکہ اراکین اسمبلی کو ملنے والے ترقیاتی بجٹ کو 50 لاکھ سے بڑھا کر 4 کروڑ روپے کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ اراکین اسمبلی اپنے حلقوں میں زیادہ سے زیادہ ترقیاتی کام کروا سکیں۔ ان اقدامات پر لیگی کارکنان نے کافی مایوسی کا اظہار کیا تاہم جلد ہی عوام کے سامنے ثمرات آنا شروع ہو گئے اور محض پونے دو سال کے عرصہ میں حکومت نے ریاست میں ترقیاتی کاموں پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر اعتماد کا اظہار کیا۔ حکومت نے ریاست میں گڈ گورنس اور میرٹ کی بالادستی کیلئے سرکاری ٹیچرز کی تعیناتی NTS سے مشروط کر دی جبکہ گزٹیڈ پوسٹوں پر تعیناتیوں کو پبلک سروس کمیشن کے ساتھ مشروط کر دیا ساتھ ہی ساتھ ماضی میں بنایا گیا پبلک سروس کمیشن توڑ دیا گیا اور اچھی شہرت کے حامل افراد کو نئے پبلک سروس کمیشن کا حصہ بنایا گیا جسکی وجہ سے ریاست بھر میں ہونے والی تقرریوں اور تعیناتیوں پر میرٹ کو فوقیت دی گئی اور غریب گھروں کے بچوں کو بغیر سفارش کے ملازمتوں کے حصول کے قابل بنایا گیا ورنہ ماضی میں یہ ملازمتیں سیاسی کارکنوں کو بھرتی کرنے کا ذریعہ ہوا کرتی تھیں جسکی وجہ سے نہ صرف ریاست میں پڑھے لکھے بچوں میں حکومت پر عدم اعتماد پا یا جاتا تھا بلکہ ادارے بھی تباہی کی جانب جا رہے تھے۔ حکومت نے اس دوران تحریک آزادی کشمیر کے لئے بھی گراں قدر خدمات سرانجام دیں اور یورپ بالخصوص برطانیہ میں تحریک آزادی کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے کام کرنے والے افراد سے بلاتخصیص سیاسی وابستگی روابط مضبوط کئے اور ساتھ ہی ساتھ ریاست میں گڈگورنس اور میرٹ کی بالادستی کی مثالیں قائم کر کے ریاست نے اوورسیز کشمیریوں کا اعتماد بھی بحال کیا یہی وجہ ہے کہ ماضی کے مقابلے ان سالوں میں برطانیہ اور یورپ کے ایوانوں میں تحریک آزادی کی گونج زیادہ موثر انداز میں بلند ہو سکی۔راجہ فاروق حیدر خان کی حکومت آزادکشمیر کا نقشہ بدلنے میں مصروف عمل ہے۔ آزادکشمیر کا روڈ انفراسٹرکچر بہتر ہو رہا ہے جبکہ ٹرپل ایم موٹروے کی تعمیر کے بعد ریاست ایک نئے دور میں داخل ہو جائیگی۔ علاوہ ازیں سی پیک میں دو صنعتی زون کا حصول بھی راجہ فاروق حیدر خان کی جانب سے ریاست کی تقدیر بدلنے میں اہم سنگ میل ثابت ہو گا جس سے نہ صرف روزگار بلکہ آزادکشمیر میں دیگر شعبہ ہائے زندگی کی ترقی میں بھی مدد ملے گی۔ راجہ فاروق حیدر خان کے خلاف گاہے بگاہے مجید حکومت میں لگنے والے پراپرٹی ٹیکس، تعلیمی بورڈ منتقلی، تعلیمی پیکج اور اداروں کا انضمام جیسے کارناموں کو بنیاد بنا کر پراپگنڈے کئے جاتے ہیں اور یہ معمول بن چکا ہے کہ حکومت کے اچھے کاموں کو نظرانداز کرتے ہوئے منفی پراپگنڈوں کے ذریعے حکومت کا مثبت چہرہ داغدار کرنے کی کوشش شروع دن سے چلی آرہی ہیں مگر فاروق حیدر کبھی ان پراپگنڈوں سے گھبرائے نہیں بلکہ انکا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور سرخرو ہو کر اپنا نقطہ نظر عوام میں منوا بھی لیا۔بلاشبہ راجہ فاروق حیدر خان نے تعمیر و ترقی، میرٹ، گڈگورنس اور بااختیار خود کفیل آزادکشمیر کے لئے جو کوششیں کی ہیں وہ اگر بارآور ثابت ہوئیں تو ریاستی تاریخ میں راجہ فاروق حیدر خان کو بدلتے کشمیر کا معمار قرار دیا جائے گا اور تاریخ میں وہ امر ہو جائیں گے۔