معیشت، روایت وثقافت کاامین ، سبی میلہ
قدیم تاریخ کے مطابق ثقافتی، روایتی اور تاریخی ’’سبی میلہ‘‘ 15 ویں صدی سے منعقد ہوتا آرہا ہے۔ سبی میلے کی اپنی ایک تاریخی حیثیت وحقیقت ہے۔ماضی میں سبی میلہ شاہی جرگوں کے توسط سے منایا جاتا تھا جس میں معتبرین ایک جگہ جمع ہو کر خطے کے بہتر مفاد میں معیشت کو سہارا دینے کے لئے اپنی تجاویز پیش کرتے تھے۔تاریخی سبی میلے میں ملک کے بانی قائد اعظم محمدعلی جناح سے لے کر پاکستان کے صدر واورو زراء اعظم نے بھی بطور مہمان خصوصی شرکت کی ہے۔امسال بھی سبی میلہ کی اختتامی تقریبات میں صدر مملکت ممنون حسین نے شرکت کی۔انہوں نے اس تاریخی میلہ کو سراہا اور اس کو علاقے کی معاشی ترقی کے لئے کارآمد قراردیتے ہوئے اسے قومی وحدت ویکجہتی کا مظہر اور بلوچستان کی ثقافت کے اقدار کا نمائندہ قرار دیا ۔ قیام پاکستان کے بعد حکومت نے عوام کے معاشی‘سماجی‘ تفریحی مو قعوں کی احساس ذمہ داری نبھاتے ہوئے ہر سال خوشگوار موسم میں ’’سبی میلہ‘‘کاانعقاد کرتی رہی۔میلے کے دوران سرکاری عمارتوںسمیت سبی شہر کے تاریخی مقام’’ جرگہ ہال‘پر خصوصی طور پر چراغاں کیا جاتا ہے۔جہاں میلے کے دنوں میں علمی‘ ثقافتی وروایتی پروگرام منعقد ہوتے رہتے ہیںاور ہررات محفل موسیقی کا پروگرام بھی ہوتا ہے۔ جس میں ملک کے مشہور ومعروف فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیںاورعلاقائی لوکل رقص بھی پیش کیا جاتا ہے۔ سبی میلے میں عوام کی دلچسپی کے لئے خصوصی پروگرامات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جن میں فوڈ اسٹریٹ ، قدیم نوادرات کی نمائش ، مال مویشیوں کی منڈی، آتش بازی کا مظاہرہ، زراعت ودستکاری اور چھوٹی صنعتوں کے فروغ کے لئے زرعی وصنعتی نمائش کا انعقاد شامل ہے۔میلے میں علاقائی ثقافت کو خاص کر اجاگر کیا جاتا ہے اور کھیلوں کے حوالے سے مختلف پروگرامات منعقد کئے جاتے ہیں۔ جس میں ملا کھڑا، کبڈی، کرکٹ،فٹبال، بیڈمنٹن، میجک شو،میوزیکل شو، بیل ریس، سائیکل ریس،گھوڑا ریس منعقد کئے جاتے ہیں ۔ نعت خوانی، قرآت خوانی، تقاریر،ادبی پروگرام محفل مشاعرہ بھی منعقد ہوتا ہے۔ سبی میلے میںجانوروں کی ایک بڑی منڈی لگتی ہے ‘جس میںسندھ ‘پنجاب سمیت ایران‘افغانستان اور ملک کے دیگر صوبوں سے بیوپاری اعلیٰ نسل کے جانور خریدنے یہاں آتے ہیں۔سبی میلے میںہزاروں جانوروں کی خرید و فروخت ہوتی ہے اوربلوچستان سمیت سندھ ‘پنجاب کے دور دراز علاقوں سے لاکھوں کی تعداد میں جانورلائے جاتے ہیں۔ جن میںپنجاب سرائیکی بیلٹ کے چھوٹے قدوالے( کالے ‘سرخ) بیل‘سندھ کی بھینس،اپر پنجاب کی سرخ گائے، ایران کے اونٹ اورافغانستان کی پہاڑی بھیڑ بکریاں شامل ہیں۔ حیوانات کے کار وبارمیںمیلے کے دنوں کروڑوں روپے لین دین ہوتی ہے ۔جس کا سال بھر علاقائی سطح پر انتظار ہوتا رہتا ہے اور زیادہ تر سال بھر کا معاشی پروگرام اسی میلے کی مناسبت سے ہوتا ہے اور اس میں لینا دینا وادائیگی کی جاتی ہے ۔ بلوچستان زرعی اور گلہ بانی کے حوالے سے اپنی ایک جداگانہ افادیت رکھتا ہے۔ زرعی ‘گلہ بانی ‘ صنعتی ‘علمی وفنی ماہرین کی صلاحیتوں اور ان کے ہنر سے استفادہ کرتے ہوئے حکومت سبی میلے میں ایک ’’عوامی نمائش ‘‘کا انعقادبھی کرتی ہے ۔ قبائلی معاشرہ بلوچستان میں عورت کو اپنا مقام اور اس کے شعور کو اجاگر کرنے کے لئے بھی نمائش میںاسٹالز لگائے جاتے ہیں ۔میلے کے دوران ایک دن ’خواتین شو‘‘ کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے تاکہ خواتین بھی اپنے روایتی ، تاریخی اور ثقافتی پس منظر کو دیکھ سکیں۔ جانو روں کی نمائش بھی منعقد کی جاتی ہے جس میںبیل، بھینس‘گائے ‘ بھیڑ بکریاں لائے جاتے ہیں۔ ان میں پوزیشن لینے والے جانوروں کے مالکان کو حکومت کی جانب سے انعامات سے بھی نوازا جاتا ہے۔عوامی تفریح کیلئے تھیٹرز‘موت کا کنواں‘ چائنا سے اعلیٰ مہارات رکھنے والے فنکاروں پر مشتمل’’ سرکس‘‘ کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے ۔ جس میں چینی اور پاکستانی کرتب دکھانے والے فنکار اپنے اپنے منفرد فن کا مظاہرہ کرکے عوام الناس کوخوب محظوظ کرتے ہیں‘عوامی طرز کے دیگر تفریحی ایونٹ بھی سبی میلے کا زیور ہوتے ہیں ۔صدیوں پر مشتمل ’’ سبی عوامی میلہ ‘‘ خطے میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس طرح کے میلوں کے انعقاد سے جہاں ملک کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ ہو تا ہے‘ وہاں کروڑوں روپے کی معیشت کو دوام ملتا ہے۔صدرمملکت نے اپنے دورہ سبی میلہ کے موقع پر ملکی معیشت اوربلوچستان میں ترقی کے حوالے سے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو صوبے میں غربت اور بے روزگاری میں کسی حد تک کمی واقع قرار دیا۔تاہم موجودہ جمہوری حکومت کی جانب سے صوبے کی پسماندگی دور کرنے اور ترقیاتی کاموں کے حوالے سے گوادر پورٹ ، ساحلی شاہراہ، حب ڈیم ، گوادرایئرپورٹ ، کچھی کینال، زرعی یونیورسٹی ، سمنگلی فلائی اور ، مانگی ڈیم ودیگر ترقیاتی منصوبوں کے موثر اقدامات سے بلوچستان ترقی کی راہ پرگامزن ہو گا۔