سر راہے
بجلی کی کمی دور کرنے کے دعوئوں کے باوجود لوڈشیڈنگ میں اضافہ
ایک طرف ہمارے باخبر وزیر حماد اظہرفرماتے ہیں کہ طلب و رسد میں فرق ختم ہوگیا ہے۔ اب ملک بھر میں کہیں بھی لوڈشیڈنگ نہیں ہورہی۔ اس خبر کو پڑھ کر سن کر عوام خوشی سے نہال ہوگئے کہ اب اس موسم گرما میں انہیں لوڈشیڈنگ سے نجات ملے گی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ کراچی تا چترال
دشت ویراں سے تیری یاد ہے تنہائی ہے
زندگی درد کی بانہوں میں سمٹ آئی ہے
والی حالت ہے۔ لوگ جھولیاں اٹھا اٹھا کر پنکھا جھل رہے ہیں۔ کہیں اخبار،کہیں گتا اور کہیں دستی پنکھا جھلتے ہوئے لوگ گرمی کا مقابلہ کررہے ہیں۔ مگر گرمی کا زور زیادہ ہے درجہ حرارت 45 سے اوپر کا رخ کررہا ہو تو لوڈشیڈنگ کے طویل دورانیے میں یہ تمام دیسی ٹوٹکے ناکام رہتے ہیں۔ آسمان سے آگ برستی محسوس ہوتی ہے، زمین تپ رہی ہوتی ہے، لو چل رہی ہو تو گھر، بازار، مارکیٹ، دکان سب تنور بن جاتے ہیں۔ چوٹی تا ایڑی پسینہ یوں بہتا ہے جیسے پرنالہ کھل گیا ہو۔ اب اس حالت میں اگر وفاقی وزیر مخول اور ٹھٹھول کرتے نظر آئیں تو جی جلتا ہے ، خون کھول اٹھتا ہے۔ یہ بااثر لوگ ہیں ان کے گھر میں بجلی کبھی بھولے سے بھی نہیں جاتی کئی فیز سے انہیں فراہم کی جاتی ہے۔ پھر یو پی ایس اور جنریٹر بھی ہمہ وقت ان کیلئے سٹینڈ بائی رہتے ہیں۔ اے سی والے گھر، گاڑی اور دفاتر میں رہنے والی اس مخلوق کو کیا معلوم کہ 45 سینٹی گریڈ پر زمین کیسے تپتی ہے، ہوا کیسے جھلسا دیتی ہے۔ یہ تو ہمہ وقت جنت کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں مگر ان کی دروغ گوئی پر قوم روتی ہے۔ خدارا حکومت اپنے اعلانات پر عمل کراتے ہوئے لوڈشیڈنگ میں کمی لائے اسے ختم کرے یا اپنے دعوے واپس لے۔
٭٭٭٭٭
کراچی کے دو گولڈ میڈلسٹ باکسر منڈی میں مزدوری کرنے پر مجبور
یہ کوئی فلمی کہانی تو نہیں مگر فلمی کہانی سے زیادہ پراثر کہانی ہے۔ عاصم خان اور شاہ زیب کا تعلق کراچی کے غریب گھرانوں سے ہے۔ ان دونوں نوجوان کوباکسنگ کا شوق تھا۔ انہوں نے اپنے شوق کی خاطر نجی کلب جوائن کیا جہاں تیکوانڈو اور باکسنگ مارشل آرٹس کی تربیت لینا شروع کی۔ جب خواہش سچی ہو لگن موجود ہو تو پھر کوئی مشکل راہ میں حائل نہیں ہوتی۔ ان کے گھر والوں نے انہیں سمجھایا کہ کوئی ڈھنگ کا کام سیکھ لو زندگی بنائو یہ باکسنگ سے کچھ نہیں ملنا مگر یہ دونوں سر پھرے نہیں مانے اور انہوں نے اپنی تربیت جاری رکھی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کم عمری میں انہوں نے پاکستان کی سطح پر تمام نیشنل مقابلوں میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ ان کو ملنے والے میڈلوں کے انبار ان کی کامیابیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں مگر انہیں نیشنل چیمپئن ہونے کے باوجود حکومتی سرپرستی حاصل نہ ہوسکی۔ کامیابیوں کا تمام سفر انہوں نے اپنے بل بوتے پر طے کیا ۔ ملک سے باہر بھی اگر گئے تو کامیاب و کامران واپس لوٹے۔ یہ دونوں نوجوان اچھے دوست بھی ہیں جو صبح 4 بجے سبزی منڈی جاکر پیٹیاں اور بوریاں اٹھاتے ہیں۔ یعنی باکسنگ چیمپئن ہونے کے باوجود بوجھ ڈھوتے ہیں اور شام کو کلب جاکر تربیت حاصل کرتے ہیں۔ انہیں اپنی زندگی سے کوئی گلہ نہیں۔ انہیں اگر دکھ ہے تو اس بات کا کہ اتنی کامیابیوں کے باوجود ملک کے اندر اور باہر اپنا پرچم بلند کرنے کے باوجود وہ حکومتی سرپرستی سے محروم ہیں۔ کرونا کی وجہ سے معاملات ٹھپ ہیں ورنہ وہ روس میں مقابلے کی تیاری مکمل کرچکے تھے کہ چیمپئن شپ ملتوی ہوگئی۔ حکومت کو چھوڑیں محکمہ کھیل ہی ذرا ان ہیروں کو چن لے جنہیں شکوہ ہے کہ ان جیسے کئی ہیرے جن کا تعلق مختلف کھیلوں سے ہے مایوس ہوکر کھیلنا چھوڑ کر گوشہ گمنامی میں جابسے ہیں…
٭٭٭٭٭
انسانوں کی طرح مچھلیوں میں بھی گفتگو کے آداب پائے جاتے ہیں
سائنسدانوں کی اس تحقیقی رپورٹ میں مچھلیوں کے مہذبانہ طور طریقوں اور ان کی گفتگو کے آداب کے بارے میں حیرت انگیز انکشافات کئے گئے ہیں۔ یہ رپورٹ حضرت انسان کیلئے چشم کشا ہے جو آہستہ آہستہ گفتگو کے آداب بھول رہا ہے۔ آپ جناب سے شروع ہونے والی گفتگو اب تو اور میں پر پہنچ چکی ہے بقول غالب …؎
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
یعنی اس بات کا خدشہ چچاغالب کے دور سے ہی پیدا ہورہا تھا کہ لوگ آداب گفتگو بھول رہے تھے اور بدتہذیبی و بدکلامی کا آغاز ہوچکا تھا۔ انسان بھی معاشرتی جانور ہے۔ اسے حیوان ناطق بھی کہتے ہیں۔ اسے بول چال کا جو سلیقہ ملا ہوا ہے اگر وہ اسے بھلا بیٹھے اور جانوروں کا طرز گفتگو اپنانے لگے تو اس کے اشرف المخلوقات ہونے کا کیا فائدہ۔ انسان معزز اور برتراگر ہے تو اس لئے کہ وہ میٹھا میٹھا بولتا ہے ورنہ گدھے کی آواز ہو یا کتے کی آواز اسے سب ناپسند کرتے ہیں۔ اب بطور انسان ہمیں مچھلیوں سے ہی کچھ سیکھنا چاہئے جو ابھی تک اس دور میں بھی گفتگو کے آداب نہیں بھولیں۔ ہم انسان ہوکر گفتگو ، رہن سہن کے آداب کیسے بھول گئے ہیں۔ مہذبانہ طریقے سے بات کرنے کی بجائے غرانے کیوں لگے ہیں۔
٭٭٭٭٭
سبزہ ز ار کے برساتی نالے میں بجلی کی تاریں گرنے سے 45 بھینسیں ہلاک
گزشتہ روز ہونے والا یہ سانحہ عینی شاہدین کے مطابق ہوائی فائرنگ کا شاخسانہ ہے۔ بدقماش لوگوں کی ہوائی فائرنگ پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے بار بار پابندی کے اعلان کے باوجود ختم نہیں ہوسکی۔ شادی بیاہ کے علاوہ اسلحہ کی نمائش اور دوسروں پر دھاک بٹھانے کے لئے ہمارے ہاں ہوائی فائرنگ کرنے کی بیماری عام ہے۔ یہ کرائم زدہ بیمار ذہن کے لوگ صرف اور صرف اپنی منفی ذہنیت کا مظاہرہ کرکے دوسروں پراپنا رعب جمانا چاہتے ہیں۔ گزشتہ روز سبزہ زار میں جو حادثہ پیش آیا اس میں بنیادی کردار بھی اس ہوائی فائرنگ کا تھا جس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 11 کے وی کی تاریں ٹوٹ کر گر گئیں اب برا یہ ہوا کہ یہ تاریں برساتی نالے میں جاگریں جہاں درجنوں بھینسیں نہا رہی تھیں۔ پانی میں کرنٹ آنے سے 45 بھینسیں موقع پر ہلاک ہوگئیں۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے تڑتڑاہٹ کے شوق میں 2 کروڑ کے قریب کا نقصان ہوگیا۔ لوگوں نے فوری طور پر متعلقہ حکام کو اطلاع دی مگر حسب معمول وہ تاخیر سے پہنچے۔ اب انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ فائرنگ کرنے والوں کو کیفرکردار کو پہنچائے اور بھینسوں کے مالکان کی بھی تھوڑی بہت اشک شوئی ضرور کرے۔ کئی متاثرہ مالکان کا تو گزر بسر ہی بھینسوں کے دودھ کی فروخت پر تھا۔
٭٭٭٭٭