’’کوروناوائرس‘‘ کے ’’آفٹر شاکس‘‘
پنجابی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ ’ کئیاں نوں مانھ موافق ، کئیاں نوں بادی‘ کچھ ایسا ہی ’کورونا‘ کی بابت بھی کہا جا سکتا ہے۔ بھارت ، امریکا اور یورپ میں اس نے جو ’گل کھلائے‘ ہیں وہ کِسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ پاکستان میں بھی اس نے کچھ کم تباہی نہیں مچائی، مگردیگر ممالک کی نسبت ، متاثرین اور اموات کا تناسب کم رہا۔ ہمارے یہاں اکثریتی آبادی دیہات میں ہے۔ یہ حیران کن بات ہے کہ ’’کورونا‘‘ کی تینوں لہریں دیہات کی نسبت شہروں میں زیادہ خطرناک ثابت ہوئیں۔
آج کے دن تک دنیا بھر میں ساڑھے سترا کروڑسے زائد افراد اس موذی مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔ مرنے والوں کی تعدادسنتیس لاکھ اسی ہزار سے بڑھ چکی ہے، پاکستان دنیا میں آبادی کے اعتبار سے پانچواں بڑا ملک ہے۔ وسائل کے اعتبار سے ہم بہت پیچھے ہیں۔ یورپ کے بہت سے ممالک آبادی میں کم اور وسائل اور صحت کی سہولتوں میں بہت بہتر پوزیشن میں ہونے کے باوجود اس وباء سے شدید متاثر ہوئے۔ اٹلی ، برطانیہ ، فرانس، سپین،ایران، میکسیکو،یو کرائن، کینیڈا، اور کئی دوسرے ممالک شدید متاثرا ممالک میں شامل ہیں۔ پاکستان اس وائرس سے متاثر ممالک میں لگ بھگ انتسویں نمبر پرہے اور اموات کے حوالے سے ستائیسویں نمبر پر ہے۔ اسکے باوجود عوام کی اکثریت ’کورونا‘ کے وجود سے انکاری ہے۔ حالانکہ پاکستان میں اب تک نو لاکھ اڑتیس ہزار افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ اموات کی اب تک کی تعداد ساڑھے اکیس ہزار سے زائد ہے۔ آبادی کے تناسب سے یہ تعداد دیگر ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ جس پر اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ حکومت نے سخت لاک ڈاؤن کی پالیسی سے گریز تو کیا لیکن اس بیماری کیخلاف جن ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اُٹھانے چاہیے تھے اس میں وہ بُری طرح ناکام رہی۔ عوام کو ماسک پہنانے کیلئے اگر آپ فوج کو بیچ میں گھسیٹیں گے تو مذاق تو اُڑے گا۔ بظاہر ایک آدھ بڑے شہر وں کے علاوہ کہیں بھی فوج دکھائی نہیں دی مگر تاثر یہی دیا گیا کہ جو حکومت ایک معمولی نوعت کا کام بھی خود سے نہیں کر سکتی، اس سے کسی مشکل کام میں کیا اُمید لگائی جاسکتی ہے۔ر مضان میں نہ مساجد میں ایس او پیز کی پابندی کی گئی اور نہ ہی بازاروں میں۔ عوام نے اسے سنجیدہ لیا۔ پاکستانیوں سے متعلق مشہور ہے کہ مشکل پڑنے پر یہ اجتماعی شعور کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر کورونا کے حوالے سے تو اس سے الٹ دیکھا گیا۔ بعض افراد نے ضد میں ایس او پیز پر عمل کرنے سے انکار کیا۔ بعض کو جہالت نے اندھیرے میں رکھا۔ بڑے شہروں میں جہاں خواندگی کا تناسب زیادہ ہے وہاں اس وباء نے زیادہ تباہی مچائی۔ یورپ ، امریکا، اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کیا خواندگی میں پسماندہ ممالک سے بہتر نہیں ہیں؟ وہ زیادہ متاثر جہالت کی وجہ سے نہیں ہوئے ۔ طبی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو اس وائرس کا شکار وہ ممالک یا وہ افراد ہوئے جن میں قوتِ مدافعت کی کمی تھی۔ ایسے افراداس وائرس کا آسان ہدف تھے جن میں مدافعاتی نظام کمزور تھا۔ تھرڈ ورلڈکے پس ماندہ ممالک میں کورونا کا تناسب اتنا خطرناک نہیں رہا جتنا ترقی یافتہ ممالک میں رہا۔ اسی کی اصل وجہ ان ممالک کے باشندوںمیں اسی قوت مدافعت کی کمی دیکھی گئی۔غریب ملکوں میں قوت مدافعت کے سبب کورونا زیادہ تکلیف دہ ثابت نہیںہو سکا۔کورونا میں چھوٹے کاروباری اور دیہاڑی دار بری طرح رگڑے میں آئے۔ غربت کی لکیر سے نیچے کے لوگوں کو حکومت نے کسی حد تک compensateکیا۔
کورونا کی تینوں لہروں میں جو شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ ہے شعبہ تعلیم۔ گذشتہ ڈیڑھ سال سے طالب علموں کا زیادہ نقصان ہورہا ہے۔ اس کا بدل کسی حد تک ’’آن لائن‘‘ میں ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ، لیکن طالبعلموں کی ، کسی بھی سطح پر تریت نہ ہونے اور آن لائن سسٹم کی بنیادی سہولتوں سے محرومی، عوام کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ عوامی اجتماع والی جگہوں پر کوئی پابندی نہیں رہی، بس اڈوں ، سبزی ، فروٹ منڈیوں پر کسی کو ماسک پہنے نہیں دیکھا ۔ سکول ، کالجز اور یونیورسٹیز میں بہت آسانی سے ایس او پیز پر عمل کروایا جا سکتا تھا۔گو بچوں کی ’’موجیں ‘‘ لگی رہیں۔ والدین کی طرف سے دباؤ تھا کہ سکول کھولے جائیں ، حکومت نے بجائے ایس او پیز پر عمل کروانے کے، تعلیمی ادارے ہی بند کر دیے، اب جبکہ گرمی کی تعطیلات کا وقت تھا تو ادارے کھول کر ایک نیا مسئلہ گھڑا کر دیا گیا۔حکومت مسائل حل کرنے کی بجائے انہیں اورزیادہ الجھا رہی ہے۔ جون ،جولائی میں امتحانات خود بہت بڑا امتحان ہو گا کہ ہمارے یہاں بجلی کا مسئلہ دہائیوں سے حل طلب ہے۔ ایک ڈیڑھ سال کا نقصان طالبعلم اپنے باقی ماندہ دورانیے میں کبھی پورا نہیں کر سکیں گے۔ اب بھی وقت ہے حکومت سنجیدگی سے ’گورننس‘ پر توجہ دے، اب انکے پاس ملبہ اپوزیشن پر ڈالنے کا کوئی جواز نہیںرہا۔آخر کب تک اپنی نالائقیاں چھپانے کیلئے دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے گا؟