وزیراعظم عمران خان بھارت کو مذاکرات اور امن کے لیے تعاون پر پیشکش کرتے رہتے ہیں وہ جب سے حکومت میں آئے ہیں بھارت کے حوالے سے ان کا رویہ بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے خاصا نرم ہے۔ کرونا کے دنوں میں ایک مرتبہ پھر انہوں نے بھارت کو تعاون کی پیشکش کی ہے اور ایک مرتبہ پھر بھارت کے سخت جواب سے دشمن ہمسایہ ملک کی پالیسی واضح ہو گئی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں یا ان کا کردار خیر سگالی کے سفیر کا ہے۔ بار بار بھارت کی طرف سے سخت جواب اور نظر انداز کیے جانے کے باوجود ہمارے وزیراعظم ایک ہی جگہ رکے ہوئے ہیں شاید وہ پاکستان بھارت تعلقات کو ایک کرکٹ میچ ہی کی طرح سمجھ رہے ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات جیسے مرضی ہوں کھیل کے تعلقات بحال رہنے چاہیں۔
وزیراعظم کو یہ ذہن میں ضرور رکھنا ہو گا کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پہلے دن سے ہی خراب ہیں اور یہ کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ وہاں ان کی حکومت ہے جو اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں کو پوجتے ہیں ہم ایک اللہ کے ماننے والے ہیں ہم بت شکن ہیں وہ بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ ہم گائے ذبح کرتے ہیں وہ اس کا پیشاب پیتے ہیں اس بنیادی فرق کے باوجود پاکستان کا کوئی بھی حکمران یہ سمجھتا ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر آ جائیں گے تو یہ اس کی سب سے بڑی غلط فہمی ہے۔ شاید ہمارے وزیراعظم بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہیں کہ کرکٹ تعلقات کی طرح ملکوں کے تعلقات بھی بحال ہو جائیں گے لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔ وزیراعظم اپنے ملک میں کرونا سنبھالیں انہیں اس حوالے سے بھارت کو تعاون کی پیشکش کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ نریندرا مودی کی حکومت کشمیری مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ اسی لاکھ مسلمانوں کے گھروں کو جیل میں بدل دیا گیا ہے۔ متنازعہ علاقہ ہونے کے باوجود طاقت کے زور پر کشمیر کی آئینی و قانونی حیثیت تبدیل کر کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ کشمیر میں نوجوان حریت قیادت کو مسلسل شہید کیا جا رہا ہے۔ بچوں پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے، خواتین کی عصمت دری کے واقعات ہو رہے ہیں اس کے باوجود وزیراعظم عمران خان کو بھارت سے تعلقات قائم کرنے یا ان کی مدد کرنے یا تعاون کی پیشکش کرنے جیسے بیانات جاری کر رہے ہیں۔ کیا اس سے پہلے کبھی بھارت کی طرف سے کوئی مثبت جواب آیا ہے اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر کیوں ہر بار شرمندہ ہونے کے لیے ایک نیا بیان جاری کر دیا جاتا ہے۔
بھارت کے اقدامات و ردعمل نے واضح کر دیا ہے کہ وہ پاکستان سے تعلقات قائم نہیں کرنا چاہتا پھر ہمیں ہر وقت انہیں یاد کرنے یا انہیں اہمیت دینے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ کیسی سفارتکاری ہے کہ ہر مرتبہ شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے۔ کیا ہم صرف شرمندہ ہونے کے لیے ہی رہ گئے ہیں ہم کیوں ہر مرتبہ دوسرا گال پیش کرتے ہیں۔ ہمیں سمجھ کیوں نہیں آتی کہ بھارت کبھی باتوں سے نہیں مانے گا اس کو منانے کے لیے چین والی پالیسی ہی اختیار کرنا ہو گی۔ چین نے جس طرح بھارتی اقدامات کا بھرپور طاقت کے ساتھ جواب دیا ہے اور بھارت کو مجبوراً پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے چین نے بیانات کے بجائے عملی طور پر جواب دے کر بھارت کو سبق سکھایا ہے اگر ہمارے وزیر اعظم جارحانہ رویہ اختیار نہیں کر سکتے تو خاموشی اختیار کرنا تو ان کے بس میں ہے۔ درمیانی راستہ استعمال کرتے ہوئے خاموشی اختیار کریں تاکہ شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہر وقت بھارت بھارت کی رٹ لگانے سے بہتر ہے کہ خاموش رہیں اور آس پاس دیکھیں اور سبق حاصل کریں کہ دنیا کیا کر رہی ہے اور بھارت کونسی زبان سمجھتا ہے۔ یہ کوئی کرکٹ میچ نہیں ہے کہ جس میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ یہ ملکی سالمیت، عزت اور وقار کا معاملہ ہے یہاں ہار جیت تو بہت دور کی بات ہے یہاں تو سخت زبان کا استعمال بھی برداشت نہیں ہے اس زمینی حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے وزیراعظم کیوں بھارت کے ساتھ تعلقات کی خواہش رکھتے ہیں یا کسی بھی حوالے سے انہیں مشورہ دیتے یا تعاون کی پیشکش کرتے ہیں۔ اگر وزیراعظم یا ان کے وزیروں مشیروں کو وقت ملے تو ایک خبر ان کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں اس پر ضرور غور فرمائیں کہ ایسے وقت میں جب اقتدار میں بیٹھے بھارت نواز افراد کو ہمارے ازلی دشمن سے تعلقات کا غم کھائے جا رہا ہے ان حالات میں بھارت کن کاموں میں مصروف ہے۔ گذشتہ روز گلگت بلتستان سے سیکیورٹی فورسز نے بھارتی جاسوسوں کو گرفتار کر کے میڈیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ایس ایس پی مرزا حسن کا کہنا تھا کہ دونوں بھارتی جاسوسوں کو بھارت نے زبردستی ایل او سی کراس کرایا تھا۔ جاسوسوں کی شناخت مشتاق وانی اور فیروز احمد لون کے ناموں سے ہوئی ہے اور ان کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہے۔ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ جاسوسوں نے بھارتی عزائم سے متعلق اہم انکشافات کیے ہیں۔
آپ کر لیں پیشکش اور خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کر لیں۔ بھارت نے ہمارا ملک توڑنے اور جو بچ گیا تھا اس کا امن تباہ کرنے اور پاکستان کو دنیا مین تنہا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یہ حقیقت ہے اس کے باوجود بھی ہمیں تعلقات قائم کرنے کی جلدی رہتی ہے۔ اگر آپ چین کی طرح ردعمل نہیں دے سکتے تو کم از کم خاموش رہ کر عزت تو قائم رکھ سکتے ہیں یا تہیہ کر لیا ہے کہ دشمن کو موقع دیتے رہنا ہے کہ وہ ہمیں شرمندہ کرتا رہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو اپنی پالیسی پر ضرور نظر ثانی کرنی چاہیے۔ اگر وہ ہٹ دھرمی پر قائم ہیں تو ہمیں نرم رویہ اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے ہماری کیا مجبوری ہے کہ بار بار دوستی کا پیغام بھیجنا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024