وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان وسط ایشیائی ملکوں کی تجارتی منڈیوں تک اضافی رسائی چاہتا ہے ، افغان امن عمل بحال ہوتے ہی وسط ایشیائی ملکوں کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہوگا ۔کرغزستان میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخارجہ نے کہاکہ کرغزستان میں 2600 پاکستانی طلبہ زیر تعلیم ہیں ۔ امید ہے پاکستانی طلبہ کرغزستان میں ملک کا مثبت تشخص اجاگر کریں گے کیونکہ پاکستانی طلبہ کرغزستان میں پاکستان کے چلتے پھرتے سفیر ہیں ۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ وسطی ایشیاء کی تمام ریاستیں ہمارے لئے اہم ہیں ,یہ ہمارے قریبی پڑوسی ہیں۔ہمارے ان کے ساتھ پرانے تاریخی اور ثقافتی اور مذہبی تعلقات بھی ہیں یہاں اب نوجوان نسل میں اپنے مذہبی ، اپنی شناخت اور اپنے کلچر کا ایک نیا تشخص ابھررہا ہے ۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ کرغزستان کی نوجوان نسل اپنے قدیم مسلم تشخص کی طرف لوٹ رہی ہے ، اپنی پرانی روٹس کی طرف لوٹیں گے تو ان کا ہمارے ساتھ جو تاریخی تعلق اورحوالہ ہے وہ یقیناً اجاگر ہوگا, مجھے یقین ہے آپ اس مواقع کا فائدہ اٹھائیں گے۔ پاکستان بھی چارہا ہے کہ ہم پہلے سے زیادہ ان ممالک کے ساتھ روابط استوار کریں, یہ مارکیٹیں ہیں یہاں نئے نئے مواقع ہیں انہوں نے آگے بڑھنا ہے۔ اگرچہ آبادی محدود ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی استعداد میں اضافہ ہوگا۔پاکستان وسط ایشیائی ملکوں کی تجارتی منڈیوں تک اضافی رسائی چاہتا ہے ۔ ہم ان کی بہت سی ضروریات پوری کرسکتے ہیں ہمیں جوائنٹ وینچر کی طرف بھی دیکھنا چاہیے ۔ میں سمجھتا ہوں پاکستان میں سرمایہ کاری اور تجارت کے بے پناہ مواقع ہیں۔بدقسمتی سے رابطے کے ایشوز ہیں, ہمارا ڈائریکٹ ایئر کنکشن نہیں ہے جیسے جیسے افغانستان کے حالات میں بہتری آتی ہے وہاں امن لوٹ آتا ہے ویسے ویسے زمینی راستوں سے تجارت کے امکانات بڑھتے چلے جائیں گے۔ پاکستان کرغزستان کے ساتھ عوامی روابط کے فروغ کا خواہاں ہے اگر آمدورفت میں اضافہ ہوتا ہے تو بہت سے پاکستانی یہاں آنا پسند کریں گے اوریہاں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوں گے ۔کرغزستان قدرتی خوبصورتی سے مالا مال ہے۔ ہماری بھی خواہش ہے کہ ہم اپنے ملک کوکھولیں ویزا رجیم کو زیادہ آسان بنائیں اور پہلے سے زیادہ لوگوں کودعوت دیں۔ پاکستان میں امن و استحکام میں بہتری آئی ہے۔ جیسے جیسے بہتری آرہی ہے ویسے ویسے ہمارا اعتماد بڑھ رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں باہر کے لوگ پاکستان آئیں جب یہ آئیں گے تو دیکھیں گے ان کیلئے پاکستان میں کتنے امکانات ہیں۔ تجارت کے کتنے امکانات ہیں ۔ باہمی تعلقات کے فروغ میں پاکستانی کمیونٹی اہم کردارادا کرسکتی ہے۔ دوروز پہلے ہم نے پاکستان میں بہت ہی مشکل حالات میں بجٹ پیش کیا ہے اس پر اب بحث ہوگی اور پھر ووٹنگ بھی ہوگی ، ہم نے کوشش کی ہے کہ ایسے اقدامات اٹھائیں جو دوررس ہوں۔ ادھار میں ہم اتنے پستے رہے ہیں آج کیفیت یہ ہے کہ اس ادھارکو چکانے کیلئے مزید ادھار درکار ہے۔ سود کی ادائیگی کیلئے مزید ادھار لینا پڑتا ہے ۔ یہ ہے ہماری کیفیت جس ملک کی آمدن کا نصف حصہ ماضی کے قرضوں کو چکانے پرچلا جائے جس کا موجودہ حکومت سے کوئی تعلق نہ ہو بتائیے اس کیلئے کتنی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ اگر ہمارے پاس وسائل نہیں ہوں گے تو ہم ان شعبوں پر کیسے توجہ دیں گے جو ہماری ترجیح ہیں جس ملک کی 22کروڑ آبادی ہو اور اس میں صرف بلواسطہ انکم ٹیکس دینے والا طبقہ 20 لاکھ ہوتو پھر ملک کیسے چلے گا۔ پھر ہم مقابلہ اپنے سے بڑے ملکوں کا کرتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان ملکوں نے کیسے ترقی کی ۔پاکستان اورچین اکٹھے آزاد ہوئے مگر آج چین دنیا کی بڑی معیشت ہے ایک ارب کا ملک ہے ۔ انہوں نے مسلسل گروتھ کے ذریعے غربت کاخاتمہ کیا ہے ۔ ہم نے احساس پروگرام کا آغاز کیا یہ ایسا پروگرام ہے جس میں ہم نے کوشش کی ہے کہ پاکستان کے محروم طبقے پر توجہ دیں۔ محدود وسائل کے باوجود ہم نے اس پروگرام کی مد میں 152 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے ۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ پاکستان کے وہ شہر وہ علاقے اورصوبے جو ماضی میں نظر انداز کیے جاتے رہے, فاٹا کا علاقہ کتنا اہم علاقہ ہے ۔ اگر ہم نے افغانستان سے اپنے تعلقات بہتر کرنے ہیں اگر وہاں امن حاصل کرنا ہے توٹرابل بیلٹ کی ترقی و بحالی ہمارے لئے بہت اہم ہے مگر افسوس اس پرتوجہ نہیں دی گئی ہے پہلی دفعہ فاٹاکی ترقی کیلئے 152 ارب روپے رکھاگیا ہے ۔ اسی طرح دو صوبے خیبرپختونخوا اور بلوچستان جو پسماندہ تصور کیے جاتے ہیں ہم نے کوشش کی ہے کہ پسماندہ اضلاع کیلئے اپنی ترجیحات میں تبدیلی لائی جائے۔ وہ پالیسی بنائی جائے جس سے عام شہری کی بہتری ہو ,اداروں کی اصلاح کریں, ملک سے کرپشن اورکرپٹ نظام کو بہتر کرنے کیلئے ہم ایک ایسا بلا تفریق احتساب کا عمل جاری کریں جس سے پاکستان کے وسائل جو لوگوں کی تجوریوں میں منتقل ہوتے تھے وہ پاکستان کے خزانے میں منتقل ہوں جس سے پاکستان کے شہریوں کی فلاح و بہبود ہو۔ ہم نے ماضی کی باتوں سے نکل کر یہ کوشش کی ہے اور اس بجٹ میں ہم اس کو فروغ دے رہے ہیں۔ ہم لوگوں کو ایک موقع فراہم کرنا چاہتے ہیں کہ اگر آپ کے خفیہ اثاثے ہیں آئیے 30جون تک اسے جائز کرلیجئے۔ یہ ایک مناسب موقع ہے پچھلے دس سالوں میں جس طرح ملک کو بے دردی سے مفلوج کیا گیا اور بے تحاشا قرضے لئے گئے آئیں دیکھیں وہ پیسہ کہاں استعمال ہوا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024