وزیراعظم پاکستان عمران خان نے قوم سے خطاب میں گزشتہ دس برس میں لیے گئے قرضوں پر تحقیقاتی کمشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ گزشتہ دس سالہ جمہوری دور میں غیر ملکی قرضہ چھ ہزار ارب سے تیس ہزار ارب ہو گیا۔
وزیراعظم عمران خان کی طرف سے اس اہم مسئلہ پر تحقیقاتی کمشن کے قیام کا اعلان خوش آئند ہے۔ ماضی میں بغیر سوچے سمجھے قرض لیا جاتا رہا اور آج ہم قرض کے بوجھ میں اس حد تک دب چکے ہیں کہ قسطوں کی ادائیگی میں بہت بڑی رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ ماضی میں حکمرانوں نے غیر ضروری پراجیکٹس قرض لے کر شروع کیے، اپنے دور حکومت کو طوالت دینے کے لیے عوام کو اندھیرے میں رکھا، میگا پراجیکٹس کی آڑ میں کرپشن کا بازار گرم ہوا، من پسند افراد کو ٹھیکے دیے گئے، میگا پراجیکٹس کی آڑ میں ملک قرضوں میں جکڑتا چلا گیا، غیر ضروری منصوبوں پر بے دریغ پیسہ خرچ کیا گیا۔ اس دوران حکومتوں نے نہ تو اپنے اخراجات کم کیے، نہ ہی کرپشن کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے گئے، تمام بااثر افراد، حکمرانوں کے رشتہ دار اور قریبی دوستوں نے اربوں روپے کی ہیر پھیر میں حصہ ڈالا اس عرصے میں ظالم حکمرانوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ جمہوریت کے علمبردار سیاہ وسفید کے مالک بنے بیٹھے تھے۔ ملکی معیشت کو تباہ و برباد کر کے بچہ بچہ مقروض کر دیا۔ یہی وجہ ہے آج قرضے کے اس پیسے کی وجہ سے عوام کو تکلیف کا سامنا ہے، قسطوں کی ادائیگی بہت بڑا مسئلہ ہے، جمہوریت کے نام نہاد علمبرداروں نے وسائل بڑھانے کے بجائے قرضوں کا بوجھ بڑھایا، اپنے وسائل پیدا کرنے کے بجائے قرضوں کے ذریعے ملک کو چلاتے رہے۔ اس مشق سے مصنوعی بہتری نظر آئی لیکن یہ نہیں سوچا گیا کہ قرضوں کی بنیاد پر کھڑی عمارت کو کب تک قائم رکھا جا سکتا ہے اور کیسے قائم رکھا جا سکتا ہے، جمہوریت کے علمبرداروں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ملک پر قرضوں کا بوجھ ڈالا ہے، یہ بیرونی طاقتوں کے زیر اثر، بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر قرض لیتے رہے لیتے رہے اور آج ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے۔کیا یہ ملک کی خدمت ہے، کیا یہ عوام کی خدمت ہے، کیا یہ وطن سے محبت ہے، قرضوں کے سہارے مصنوعی طور پر ترقی دکھانے کے منصوبے لگاتے لگاتے اپنے خزانے بھر گئے اور ملک کو ہزاروں ارب ڈالرز کا مقروض کر دیا۔
بدقسمتی ہے کہ آج بھی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت اور انکی دوسرے درجے کی غیر موثر قیادت یہ حقیقت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں غلط معاشی پالیسیوں، غیر ضروری منصوبوں، حکومتی اخراجات کے بڑھنے اور لوٹ مار کا بازار گرم ہونے کی وجہ سے پاکستان مسائل کی دلدل میں پھنس گیا ہے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے بڑے اور ان کے چھوٹے عوام کو سچ بتانے کے بجائے سیاسی مقدمات کا رونا رو رہے ہیں۔ یہ ملک کے خدمت گار ہونے کے دعویدار تو ہیں لیکن انہوں نے قوم کی خدمت کے بجائے اپنے خاندانوں اور دوستوں کی خدمت کی ہے۔ اپنے خاندان اور دوستوں کے لیے جائیدادیں بنائی ہیں، بے نامی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے بیرون ملک منتقل کیے ہیں، منی لانڈرنگ کو فروغ دیا ہے، کرپشن کی سرپرستی کی ہے۔ ان کے کریڈٹ پر سوائے لوٹ مار کے کچھ نہیں ہے۔ اگر واقعی یہ ملک و قوم کے خدمت گزاروں میں سے ہیں تو غیر قانونی طور بیرون ملک بھیجنے والے اربوں روپے واپس قومی خزانے میں جمع کروائیں اور عوام کی جان چھوڑیں۔ یہ لوٹ مار کے پیسے واپس کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی تازہ حکمت عملی معصوم عوام کے ساتھ کسی بھیانک مذاق سے کم نہیں ہے۔
جمہوریت کے نام نہاد علمبرداروں سے کوئی یہ پوچھے کہ ہزاروں اربوں ڈالر کا قرضہ کون اتارے گا، قسطیں کیسے ادا کی جائیں گی، یہ قرضہ لیا کیوں گیا تھا، اگر قرض لیا بھی گیا تو کیا عام آدمی کی زندگی میں کوئی بہتری آئی، مہنگائی کم ہوئی، روزگار کے مواقع پیدا ہوئے، کوئی ان سے پوچھے کہ چوبیس ہزار ارب کا قرضہ کیوں لیا گیا، یہ پیسے کہاں خرچ ہوئے، کیا اس قرض کی ضرورت تھی، کیا یہ پیسے عوام کی فلاح پر خرچ ہوئے؟؟
عمران خان کو قرضوں میں جکڑا اور بیماریوں میں مبتلا پاکستان ملا ہے، وزیر اعظم عمران خان پاکستان کو قرضوں کے بوجھ سے نکالنا چاہتے ہیں، وہ بیماریوں کا علاج کرنا چاہتے ہیں، اسی مقصد کے تحت انہوں نے تحقیقاتی کمشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس کمشن سے بھی جے آئی ٹی کی طرح بڑے انکشافات ہونگے اور عوام کو حقیقیت جاننے کا موقع ملے گا۔ تصویر کا دوسرا رخ سامنے آئے گا۔ کس نے قرض لیا، کتنا قرض کیا، کہاں خرچ ہوا، کیسے خرچ ہوا یہ جاننا عوام کا حق ہے اور اس کمشن کے ذریعے عوام کو ان کا یہ حق دیا جائے گا۔ اہم معلومات ان تک پہنچائی جائیں گی۔ اقامہ اور پانامہ کے ملزم کب تک جرائم سے انکار کرتے رہیں گے، کب تک عوام سے غلط بیانی کرتے رہیں گے۔ کب تک جھوٹ چھپاتے رہیں گے، یہ عدالتوں سے مجرم ثابت ہوئے ہیں عوامی عدالت بھی ان کے مجرم ہونے پر مہر ثبت کرے گی۔ یہ قوم کے مجرم ہیں، ضمیر کے مجرم ہیں، نسلوں کے مجرم ہیں۔ انہوں نے ذاتی کاروبار کیے ہیں وزیراعظم عمران خان کا اس مافیا کے خلاف سختی سے ڈٹے رہنا انکے مضبوط عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ عمران خان عہدے اور اختیار سے کبھی مالی فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔ وہ ملک کے مسائل ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ زندگی نے وفا کی، قسمت نے ساتھ دیا، عوامی حمایت جاری رہی تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کو لوٹنے والے اپنے انجام کو پہنچیں گے۔
قارئین کرام موجودہ حالات میں حکومت کی ذمہ داریوں میں بھی بے حد اضافہ ہوا ہے۔ ملک کو تاریخ کے بڑے بحرانوں کا سامنا ہے۔ یہ مسائل اندرونی بھی ہیں اور بیرونی بھی، تباہ حال معیشت ہے، سیاسی استحکام ہے، مہنگائی اور بیروزگاری کا طوفان ہے، عالمی طاقتوں کی شرارتیں ہیں، ملک کی بڑی سیاسی شخصیات پر قائم مقدمات ہیں۔ ان تمام مسائل سے نمٹنے کے لیے حکومت کو اپنی صفوں میں اتحاد کی ضرورت ہے۔ انصاف اور میرٹ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی سیاسی کارکن کو نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے لیکن جو سیاسی سرگرمیوں کی آڑ میں ملک کو نقصان پہنچانے والے کام کرے اسے معاف بھی نہیں کیا جانا چاہیے۔ جہاں حکومت لٹیروں کے خلاف سختی سے کام کر رہی ہے اسی عزم، جوش و جذبے لگن اور مناسب حکمت عملی کے تحت ہر قسم کے حالات میں عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے اقدامات کرنا بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔
عمران خان نے ملکی سیاست میں قدم ملک و قوم کی خدمت اور ان کی بہتری کے لیے رکھا ہے۔ انہیں بائیس برس کی طویل جدوجہد کے بعد وزارت عظمی نصیب ہوئی ہے۔ ان کا مقابلہ طاقتور سرمایہ کاروں، جاگیر داروں، صنعت کاروں، نظر آنے والے اور نظر نہ آنیوالے دشمنوں سے ہے۔ اس جنگ میں عمران خان کی طاقت پاکستانی عوام ہیں۔ عوامی حمایت سے وہ ایوان وزیر اعظم پہنچے ہیں اور عوامی حمایت سے ہی وہ ملک کو لوٹنے والوں سے بدلہ لیں گے۔پاکستان ترقی کرے گا، آگے بڑھے گا، کرپشن ختم ہو گی، انصاف کا بول بالا ہو گا ہم اور آپ وہ حقیقی پاکستان دیکھیں گے۔
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024