جمعرات ‘ 9؍ شوال المکرم 1440ھ‘ 13؍ جون 2019ء
وزیراعظم کا بجٹ تقریر کے بعد اپوزیشن کی طرف فاتحانہ انداز میں اشارہ
ظاہر ہے جب حکومت نے چتوڑ گڑھ کا یہ بجٹی قلعہ سر کر لیا ہے تو فاتحانہ مسکراہٹ اور اشارے میں کون ساعیب ہے۔ یہ اشارے بازی، فاتحانہ مسکراہٹ تو واقعی اس وقت وزیر اعظم کو زیب دیتی ہے۔ کیونکہ حکومتی ارکان ذہنی طور پر بجٹ اجلاس میں دھول دھپا اور دھینگا مشتی کے خوف سے لرزاں تھے۔ مگر آدھی بجٹ تقریر جس خاموشی سے اپوزیشن والوں نے سنی اس پر تو خود حکومتی ارکان حیران و پریشان دم سادھے رہے کہ کہیں ان کے سانس لینے سے اپوزیشن والے خواب خرگوش سے بیدار نہ ہو جائیں اور ہنگامہ آرائی شروع ہو۔ بجٹ فلم کے انٹرول کے بعد اچانک اپوزیشن والے جاگے انہیں پتہ چلا کہ آدھی فلم ختم ہو چکی ہے تو شورو غل کا بازار گرم ہوا۔ اس دوران حکومتی ارکان کانوں پر ائیر فون لگائے تقریر سنتے رہے۔ البتہ وزیراعظم اس کے ساتھ ساتھ ہاتھ میں تسبیح بھی گھماتے رہے۔ شاید جل تو جلال تو کا ورد کرتے رہے پھر جب اپوزیشن کی ساری کارکردگی صفر رہی یا پی ٹی وی کی بدولت عوام کو صفر نظر آئی تو بجٹ تقریر ختم ہو گئی اور یوں ’’دیکھنے ہم بھی گئے پر وہ تماشہ نہ ہوا،، معاملہ ختم ہوا اس پر وزیر اعظم نے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ اپوزیشن کو ’’مک گیا تیرا شو،، کا اشارہ کیا اور واپس چل دئیے تو …؎
لو چل دئیے وہ ہم کو تسلی دئیے بغیر
اک چاند چھپ گیا اجالا کئے بغیر
اسمبلی کا اجلاس ختم ہوا۔
٭٭٭٭
سپیکر قومی اسمبلی کیخلاف تحریک لائی جا سکتی ہے۔ بلاول
بھلا سپیکر قومی اسمبلی نے ایسا کونسا گناہ کر دیا کہ پیپلز پارٹی والے ان کے درپے ہو گئے ہیں۔ ابھی تک تو اسد قیصر قدرے آرام سے قومی اسمبلی کی کارروائی حکومتی ایما پر پرسکون انداز میں چلا رہے ہیں۔ اب اچانک بجٹ اجلاس کے بعد یہ انقلاب کیسا کہ بجٹ کے اجلاس کا غصہ سپیکر پر نکالا جا رہا ہے۔ اب بلاول زرداری ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ کے علاوہ ان کے خلاف عدالتی جنگ کی بھی دھمکی دے رہے ہیں ۔ معلوم نہیں سپیکر قومی اسمبلی پر اس بات کا کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں۔ مگر ایک طے شدہ بات ہے کہ شاید اب وہ بھی اپوزیشن والوں کو وہ رعایت دینے سے کترائیں گے جو پہلے کسی نہ کسی حد تک دے دیتے تھے۔ اپوزیشن والوں کی آج کل سینٹ اور قومی اسمبلی کے سپیکروں کے ساتھ جو ٹسل چل رہی ہے اس کا کچھ نہ کچھ اثر تو سامنے آنا ہی تھا۔ سو اب اپوزیشن سڑکوں کے ساتھ ساتھ اسمبلی اور سینٹ میں بھی ’’دما دم مست قلندر،، کرنے کے موڈ میں نظر آتی ہے۔ دیکھنا ہے مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتیں خاص طور پر جے ٹی آئی اس دھمال میں کتنا وزن ڈالتی ہے کیونکہ ان کی طرف حکومتی ارکان اسمبلی اور وزیر اکثر ڈھیل یا ڈیل کی ہوائیں بھی اڑاتے رہتے ہیں۔ بہرحال معاملہ جوکچھ بھی ہو لوگ کچھ دنوں تک گرما گرم موسم اور سیاست کا مزہ لیتے نظر آئیں گے۔
اصغر خان کیس بند کر دیا جائے۔ ایف آئی اے کی سپریم کورٹ سے سفارش
اسی لیے کہتے ہیں گڑے مردے اکھاڑنا بے کار ہوتا ہے کیونکہ وہاں سے کچھ بھی ملنے کی امید نہیں ہوتی۔ اصغر خان کیس بھی ایسا مردہ ہے جس کے جنازے میں شریک 12 افراد خود بھی کب کے دفن ہو چکے۔ ان کے تو کفن بھی میلے ہو چکے ہوں گے۔ خود کیس کے مدعی بھی کب کا رزق خاک ہو چکے۔ مگر کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ پانی میں مدھانی رڑک کرمکھن نکال سکیں۔ ایسا نہ پہلے کبھی ہوا تھا نہ آئندہ ہوتا نظر آ تا ہے۔ بہرحال بہت کوشش بھی ہوئی تو اس کیس میں ملوث چند زندہ اور باقی مردہ افراد کی جگ ہنسائی ہی ہو گی کیونکہ آج کل کی نسل کو چند لاکھ روپے غیر قانونی طریقے سے دینے پر یا کسی حکومت کو گرانے کے لیے استعمال کرنے پر شاید ہی یقین آئے۔ آج کل تو کروڑوں کی بات چلتی ہے۔ اربوں کا ذکر یوں ہوتا ہے جیسے ہندوستانی ڈراموں اور فلموں میں 100 کروڑ یا 200 کروڑ کا تذکرہ حالانکہ 80 کروڑ ہندوستانیوں نے شاید ہی کبھی چند لاکھ اکٹھے دیکھے ہوں۔ اب واقعی اس بیکار کی پریکٹس سے کوئی فائدہ نہیں ۔ سپریم کورٹ ایف آئی اے کی استدعا قبول کر لے لی۔ اس کیس میں جن پر جتنا کیچڑ اچھلنا تھا اچھل چکا اور مرحومین کو مزید تکلیف نہ دی جائے۔ ویسے بھی آج کل اربوں کھربوں کے بہت سے کیس زیر سماعت ہیں ان پر توجہ دی جائے تاکہ ان کا فیصلہ جلد ہو۔
٭٭٭٭
الطاف حسین کی گرفتاری سے ہمارا کیا تعلق۔ وزیر داخلہ
ایک تو ہمارے وزیر داخلہ بھی بڑے بھولے ہیں۔ وہ شاید بھول رہے ہیں کہ یہ غدار وطن ننگ وطن ہماری سے گود میں پلا بڑھا اور ککھ سے لکھ بن کر لسانی سیاست کی آڑ میں جرائم پیشہ افراد کا نیٹ ورک چلاتا رہا۔ چلنے پھرنے سے معذور یہ گوشت پوست کا پہاڑ ہر وقت نشے میں نجانے کیا کیا مغلظات بکتا پھرتا تھا۔ اس کے پجاری اس کی ہر ادا پر ہر جملے پر واہ واہ کرنے اور سر ہلانے پر مجبور تھے۔ اگر نہ کرتے تو پھر انکی زبان کھینچ لی جاتی یا سر اڑا دیا جاتا تھا۔ کچھ لوگوں کو عزت راس نہیں آتی اسی طرح الطاف کو بھی راس نہیں آئی اس نے مادر وطن کیخلاف جب دشمنوں کے ساتھ مل کرسازشیں رچانی شروع کیں تو ڈنڈے والوں نے اس پر ہاتھ ڈالا جس پر وہ بھاگ کر لندن میں بھتہ لے لے کر زندگی بسر کرنے لگا اور بھانڈوں جیسی اداکاری اور باتیں کر کے لوگوں کو بے وقوف بنانے لگا۔ اب برطانوی پولیس نے نہایت مہارت کے ساتھ ثبوتوں کے بعد اس پر ہاتھ ڈالا ہے۔ دیکھنا ہے اب وہ اس سے کس طرح بچ نکلتا ہے۔ ویسے سچ یہ بھی ہے کہ وہ برطانوی شہری ہے اور اس پر وہاں کے قانون کے مطابق جو بہت سخت ہے مقدمہ چلنا چاہئے اور کڑی سزا بھی ملنی چاہئے۔ قدرت کی طرف سے اس کے لیے یہ سزا کیا کم ہے کہ اس کا چلنا پھرنا تک دوبھر ہے۔ ساتھی اسے پکڑ کر اٹھاتے اور چلاتے ہیں۔
٭٭٭٭