شمالی افریقہ کی تاریخ اور سیاست کی کہانی دلچسپ بھی ہے اور طویل بھی۔ راقم کو 77 سے 85 ء تقریباً 8½ سال تک شمالی افریقہ کے عربوںمیںرہنے کا موقعہ ملا۔ چنانچہ یہ داستان ’’دیدہ،، ہے شنیدہ نہیں اور نہ ہی ترجمہ یا کسی ملک کے سفارت خانے کی ’’عنایت‘‘ ہے کہ بعض لکھاریوں کی علمیت کا یہ عالم ہے کہ انہیں اُردن کے عمان اور مسقط والے عُمان کا فرق تک معلوم نہیں۔ ! جسے اومان لکھتے ہیں۔ کوشش کی جائے گی کہ کہانی کتاب کی بجائے کالم کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے طویل نہ ہو۔ تاہم تمہید قدرے طولانی ہو سکتی ہے۔ تاریخ سے عبرت کے واقعات حذف کردیئے جائیں تو جنات و پریوں کی کہانیوں سے مختلف نہیںرہتی۔ عرب بہار تونس (نوٹ: یہ لفظ تیونس نہیں‘ اسے تیونس‘ لکھنا اور بولنا اچھے بھلے نام اکرم کو اکو کہنے کے مترادف ہوگا)سے شروع ہوئی۔ تونس نہ صرف لیبیا کا ہمسایہ ہے بلکہ اسکی معیشت کا انحصار لیبیا کے حالات پر منحصر ہے۔ تو کہانی کا آغاز لیبیا سے کیا جاتا ہے۔
لیبیا ، شمالی افریقہ میں واقع ہے اور رقبے کے لحاظ سے افریقہ کا دوسرا بڑا ملک (11 لاکھ مربع کلومیٹر) آبادی بہ مشکل ساٹھ ستر لاکھ ہو گی۔ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں سرفہرست ہے۔ اس پر رومیوں ا ور یونانیوں نے طویل عرصہ حکومت کی۔ پھر عرب اُموی جرنیلوں نے اسے فتح کر لیا۔ نوے فیصد رقبہ صحرائے اعظم (صحارا) پر مشتمل ہے۔ ساحلی پٹی (بحیرہ روم) کو چھوڑ کراندرون ملک درجہ حرارت 52 سنٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ سترھویں صدی عیسوی میں خلافت عثمانیہ کے قبضے میں چلا گیا۔ چونکہ معاشرت قبائلی ہے‘ اس لیے ساحلی شہروں بن غازی، درنہ، سرت، طرابلس (الغرب) اور زاویہ کو چھوڑ کر بربر قبائل عموما ًخودمختار رہے۔ پچھلی صدی کے اوائل میں اٹلی خونریز جنگوں کے بعد ساحلی پٹی کے شہروں پر قابض ہو گیا۔ اطالویوں کے خلاف جہاد میں عمر المختار ہیرو بن کر اُبھرا۔ اصلاح رسوم کی تحریک السنوسی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ عمر المختار گرفتار ہو کر تختہ دار پر چڑھ کر رتبۂ شہادت سے سرفراز ہوا تو سنوسیوں نے (شاہ) ادریس کی قیادت میں اطالوی فسطائیت کے خلاف جہاد جاری رکھا۔
دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو اس پورے خطے ، مصر، لیبیا، تونس اور الجزائر پر اتحادیوں (انگریز ؍ فرانسیسی) نے قبضہ کر لیا۔ اسی جنگ میں مشرقی لیبیا میں العالمین کے مقام پر ٹینکوں کی تاریخ کی سب سے بڑی لڑائی لڑی گئی، انہی لڑائیوں میں جرمن سپہ سالار، رومیل اور انگریز جرنیل فیلڈ مارشل منگمری نے بڑی شہرت پائی، رومیل سپاہ اور ہتھیاروں کی قلت کے باوجود بڑی شجاعت مگر ہنر مندی سے لڑا اور ایسی ایسی جنگی چالیں چلیں کہ فوجی تربیتی نصاب کا حصہ بن گئیں۔ انہی حربوں کے باعث ’’صحرائی لومڑی،، کاخطاب پایا۔ ایک معرکہ میں مغرب کی طرف سے اتحادیوں کے سینکڑوں ٹینک العالمین کی طرف بڑھے، تو اُن کا مقابلہ اس طرح کیا کہ دستیاب ٹینکوں ا ور جیپوں کو بلامقصد بے تحاشا اِدھر اُدھر دوڑا کر اتنا غبار اڑایا کہ اتحادیوں کو لگا جیسے جرمن ٹینکوںکی آندھی اُمڈ آئی ہو، چنانچہ وہ اس قدر خائف یا مرعوب ہوئے کہ پسپائی میں خیریت جانی۔
جرمنی ہار گیا،اتحادیوں کو فتح ہوئی تو شمالی افریقہ کے تمام عرب ملکوں کی اس طرح بندربانٹ ہوئی کہ لیبیا، انگریزوں نے ہتھیا لیا۔چاڈ ، تونس اور الجزائر ، فرانسیسیوں نے۔ دوسری جنگ عظیم کروڑوں انسانی جانوں کے اتلاف اور معیشتوں کی بربادی کیساتھ ختم ہو گئی لیکن اسکی کوکھ سے تمام سامراجی قوتوں کے ممالک محروسہ میں آزادی کی تحریکیں اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ پاکستان نے آزادی کی ان تحریکوں کی شدو مد سے حمایت کی۔ بلکہ لیبیا اور تونس کی آزادی کا مقدمہ وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خاں نے اقوام متحدہ میں بڑی بے جگری سے لڑا اور آزادی دلائی۔ اس پالیسی نے ا ن ملکوں میں پاکستان کی نیک نامی اور مقبولیت میں زبردست اضافہ کیا۔ پرانی نسل پاکستان کا نام آتے ہی سرظفر اللہ خاں کو خاص طور پر یادکرتی تھی۔ لیبیا کو دسمبر 1951ء میں آزادی ملی تو برطانیہ نے اقتدار السنوسی تحریک کے امام ادریس کو منتقل کردیا۔ شاہ ادریس کو لیبیا کے تینوں منطقوں میں بڑی عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا بلکہ بربر قبائل میں اُنہیں مرشد کا درجہ حاصل تھا۔ اسی دوران تیل نکل آیا اور بدوئوں کو اونٹوں کی جگہ نئے نئے ماڈل کی گاڑیاں مل گئیں۔ یہی وہ زمانہ تھا جب مصر میں فوج کے ناراض افسروں نے جنرل نجیب کی قیادت میں شاہ فاروق کا تختہ اُلٹ دیا جسے تھوڑے عرصے بعد نوجوان فوجی افسر کرنل جمال عبدالناصر نے اقتدار سے محروم کر دیا۔ جنگ میں کامیابی کے لیے ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ہوشمندی کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر نوجوان فوجی افسروں نے ہوش کی جگہ پرجوش کو رکھ لیا اور عرب ملکوں کے فوجیوں کو اُکسانا شروع کر دیا کہ وہ اپنے اپنے حکمرانوں کے تختے اُلٹ دیں۔
لیبیا میں کرنل (تب وہ میجر یا شائدکیپٹن تھے) محمد معمر قذافی نے یکم ستمبر 1969ء کو شاہ ادریس کا تختہ اُلٹ دیا۔ محمد اُن کا اپنا نام تھا‘ معمر والدکا ۔ سرت کے قبیلے قذاف سے تعلق رکھتے تھے۔ قذاف پچھ لگانے والے کو کہتے ہیں۔ لیکن باہر کی دُنیا اُن کا اصل نام بھول گئی اور وہ معمر قذافی یا محض قذافی کہلانے لگے۔ وہ فطرتاً اول تا آخر صحرائی تھے۔ امریکیوں کے مخالفانہ رویے کے باعث وہ کرنل ناصر کی سرپرستی میں سوویٹ یونین کے کیمپ میں چلے گئے اور یوں کمیونزم کو مشرف بہ اسلام کر کے پورا انتظامی ڈھانچہ اسی پر استوار کر لیا۔ نئے نظام کے خدوخال واضح کرنے کے لیے کتاب الاخضر (سبز کتاب حصہ اول دوم اور سوم )تصنیف کی جو اُردو سمیت دُنیا بھرکی زبانوںمیں ترجمہ ہو کر مفت تقسیم ہوئی۔ لیبیا میں ترقی کے لیے اس کا امتحان پاس کرنا ضروری تھا۔ راقم نے بھی اس کے کئی حصے زبانی یادکر لیے تھے۔ جس سے بڑے فوائد حاصل ہوئے۔ جہاں کسی لیبیائی نے ناروا رویہ اختیار کیا یا کج بحثی شروع کی۔ کتاب الاخضر کی ’’آیات،، (مقولے) سنا کر اُس کا منہ بندکر دیا۔ میجر صاحب نے اپنے آپ کو ترقی دے کر کرنل کے عہدے پر فائز کر لیا اور قرار پایا کہ فوج میں کرنل سے بڑا عہدہ کوئی نہیں ہو گا‘ سوائے ایک استثنیٰ کے۔ شاہ ادریس کا تختہ اُلٹنے میں کیپٹن رینک کے 9 نوجوانوں نے قذافی کا ساتھ دیا ، اُن میںسے ایک بریگیڈئر کے عہدے پر پہنچا‘ بریگیڈئر احمد جابر یونس بہت ہی سادہ لوح تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قذافی کو اُن کی طرف سے کبھی خطرہ محسوس نہیں ہوا اور وہ لیبیائی فوجوں کے کمانڈر انچیف بنے۔ میجر عبدالسلام جلود کو سالہا سال تک قذافی کا جانشین سمجھا جاتا رہا لیکن جب اُن کی اپنی اولاد جوان ہو گئی تو انقلابی رہنما نے اپنے پرانے ساتھی پر اتنی مہربانی کی کہ اُنہیں دوسرے 6 ساتھیوں کی طرح موت کے گھاٹ اُتارنے کی بجائے نظروں سے گرانے پر ہی اکتفا کیا۔ (جاری)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38