بدھ ‘ 28 رمضان المبارک ‘ 1439 ھ ‘ 13 جون 2018ء
انگریزی سے آشنا نہیں دردِ دل کیسے بیان کریں۔ ارکان سینٹ کو اردو میں بریفنگ دینے کی ہدایت
سینٹ کو ایوان بالا بھی کہتے ہیں اُمید ہے ان ارکان سینٹ کو اس کا مطلب کو ضرور پتہ ہو گا کیونکہ یہ فارسی کا لفظ ہے جس کا مطلب اوپر یا اعلیٰ بھی ہے یہ ہماری نظام کی کتنی بڑی خامی ہے کہ یہاں 5 ویں سکیل کے کلرک کی بھرتی ہو تو اس بے چارے میٹرک یا ایف اے پاس نوجوان کی مت مار دی جاتی ہے۔ اردو انگریزی میں لکھنے کا ٹیسٹ لے کر پھر ٹائپنگ کا وبال علیحدہ ہوتا ہے۔ تب کہیں جا کر یہ ہونہار بروا کسی سرکاری دفتر میں رشوت اور سفارش کا تڑکا لگا کر جونیئر کلرک بھرتی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ایوان بالا جو قانون سازی کا سب سے بڑا ادارہ ہے پارلیمنٹ سے منظور شدہ قوانین بھی منظوری کے لئے یہاں آتے ہیں۔ اس ا میں ارکان بھیجنے کے لئے ہمارے پاس کوئی قابلیت نہیں معیار نہیں۔ پارٹی والے جسے چاہیں ٹکٹ بیچ کر یا دے کر یہاں بیٹھنے کے لئے بھیج دیتے ہیں۔ مال دار سیاستدان کروڑوں خرچ کر کے ووٹ خرید کر یہاں تشریف لاتے ہیں۔ اب اس ایوان بالا میں بھی اگر انگوٹھا چھاپ ہی آنے ہیں تو پھر اس کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ یہ لوگ کیا کریں گے اس ٹھنڈے ٹھار ایوان بالا میں بیٹھ کر سوائے اس کے کہ منہ اٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھیں یا آنکھیں موند کر جگالی کرتے رہیں۔ دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ سے بھی بالا ہونے کی وجہ سے اس ایوان کی اہمیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اب اگر ارکان سینٹ کواردو میں بھی بریفنگ دی گئی تو قسم لے لیں آدھے سے زیادہ ممبران سینٹ اس کو بھی پوری طرح سمجھ نہیں سکیں گے کیونکہ وہ ا ۔ ب ۔ ت سے ز یادہ اردو میں بھی مہارت نہیں رکھتے۔ اب کہیں ان کے لئے پشتو، پنجابی ، ہند کو، سرائیکی، مکرانی ، بلوچی، سندھی اور براہوی میں ترجمانی کا بندوبست نہ کرنا پڑے جائے۔ اس لئے بہتر ہے کہ پارلیمنٹ اور سینٹ میں کم از کم ماسٹر ڈگری رکھنے والوں کو ہی ٹکٹ دینے کا قانون بنایا جائے تاکہ ان ایوانوں کی مزید بے حرمتی تو نہ ہو۔
٭....٭....٭
بنوں میں 100 سالہ بزرگ خاتون عمران خان کے مقابلے میں الیکشن لڑیں گی
اس خاتون کی استقامت دیکھتے ہوئے ریٹرننگ افسر نے بھی ان کی درخواست فیس معاف کر دی۔ بنوں جیسے روایتی قدامت پرست علاقے میں یہ فیصلہ کرنا بڑے دل گردے کی بات ہے یا مذاق ہے۔ ہاں اب عمران خان کے لئے یہ بڑا نازک مقام ہے۔ ایک سو سالہ بزرگ خاتون سے مقابلہ کرنا کسی مرد میدان کو زیب نہیں دیتا۔ وہ کوشش کریں کہ جا کر اس خاتون کی دعائیں لیں اور انہیں جا کر سمجھائیں کہ آپ اس عمر میں تکلیف کیوں کر رہی ہیں۔ لومیں خود ہی آپ کے پاس آ گیا سر جھکا دیا اب آپ میرے سر پر دست شفقت پھریں اور مقابلے سے دستبردار ہو جائیں کیونکہ اگر میں دستبردار ہوا تو دوسرے اُمیدوار آپ کو جیتنے نہیں دیں گے۔ اس لئے ان کو ہرانے کی خاطر آپ مجھے سپورٹ کریں۔ یہ خاتون پہلے بھی پانچ بار الیکشن لڑ چکی ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں بھی سیاستدانوں کی طرح الیکشن لڑنے کا چسکا ہے۔ ورنہ ا س عمر میں تو لوگ اللہ اللہ کرتے ہیں۔ یہ بڑی بی ہیں کہ میدان سیاست میں کود رہی ہیں۔ اخراجات کی بھی انہیں پرواہ نہیں کہتی ہیں میرے پاس زمینیں ہیں اور میرے بیٹے میرا خرچہ برداشت کریں گے۔ ا س لئے اب دیکھنا ہے اس سیاسی دنگل میں مقابلہ ہوتا ہے یا پہلے ہی معاملہ طے کر لیا جاتا ہے....
٭....٭....٭
تیزرفتاری پر سابق وزیر اعظم کو 750 روپے جرمانہ۔ اہلکاروں نے سیلفیاں بھی بنائیں
راوی ٹول پلازہ کے پاس موٹروے پولیس اہلکاروں نے سابق وزیراعظم کو تیز رفتاری پر روکا ا ور 750 روپے جرمانہ کیا۔ اس کے بعد ان اہلکاروں نے شاہد خاقان عباسی کے ساتھ سیلفیاں بھی بنائیں۔ کیا معلوم ازراہے مروت ....
یہ ملاقات اک بہانہ ہے
پیار کا سلسلہ پرانا ہے
کہتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا ہوکہ جناب یہ جرمانہ تو ویسے ہی بہانہ تھا اصل میں ہم آپ سے ملنا اور سیلفیاں بنوانا چاہتے تھے۔ سابق وزیر اعظم نے ا ن اہلکاروں کی فرض شناسی پر انہیں شاباش دی اور خوشی خوشی ان کے ساتھ سیلفیاں بھی بنائیں۔
اب خدا خیر کرے کہیں ان کے ڈیپارٹمنٹ والے ان کے اس حسن سلوک پر تلملا نہ اٹھیں کہ اہلکاروں نے جرمانے تک تو ٹھیک کیا مگر یہ سیلفیاں بنانا بھی کیا انکی ڈیوٹی میں شامل تھا۔ ویسے بھی ہمارے ہاں صرف چڑھتے سورج کی پوجا ہوتی ہے۔جانے والوں کوکوئی یاد بھی مشکل سے ہی کرتا ہے۔ دیکھتے ہیں اب یہ ان موٹروے پولیس اہلکاروں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اس حسن کارکردگی پر یا انہیں جھاڑیں پڑتی ہیں۔
٭....٭....٭
بھارت میں ایک اور پاکستانی کبوتر نے سکیورٹی حکام کی نیندیں اڑا دیں
اب بھارتی حکام کو کون سمجھائے کہ بابا سرحدیں زمینوں پر ہوتی ہیں۔ انسانوں کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ فضا میں کوئی سرحد نہیں پرندے اس سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ ان کی اپنی اُڑان ہوتی ہے وہ پل میں اِدھر پل میں اُدھر ہوتے ہیں۔ مگر لگتا ہے پوری بھارتی سرحدی فورس آسمان پر دور بین لگائے اس کام میں مصروف رہتی ہے کہ کہیں پاکستان سے کوئی کبوتر یا باز اُڑتا ہوا انڈیا کی طرف آئے وہ خطرے کا الارم بجا کر پوری فوج کو الرٹ کر دیں اور دہلی تک ریڈ الرٹ جاری ہو۔ پہلے بھی کئی بار بھارت نے کبھی کبوتر اور کبھی باز پکڑ کر پاکستان پرالزام لگایا کہ وہ ان پرندوں سے جاسوسی کراتا ہے۔ ان بے زبانوں کے ایکسرے ہوئے سکریننگ ہوئی۔ انہیں پنجرہ میں ڈال کر قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے تاکہ وہ بھوک پیاس سے تنگ آ کر سچ اُگل دیں کہ وہ پاکستان کے جاسوس ہیں اور بھارت جاسوسی کے لئے آئے تھے۔
نجانے کیوں بھارت کی نظریں ان دو پاکباز پرندوں پر ہی ٹکتی ہیں یہ جو روزانہ ہزاروں، چیلیں ، گدھ، کوے بے دھڑک اِدھر ُادھر اُڑتے پھرتے ہیں ان کو کیوں پکڑا نہیں جاتا۔ شاید یہ دونوں پرندے مسلمانوں والی صفات رکھتے ہیں۔ مردار خور نہیں اس لئے انہیں جاسوس سمجھ لیا جاتا ہے۔ بھگوان کے لئے ہی بھارتی اپنی عقل سے کام لیں اور اس پکڑے گئے بے چارے کبوتر پر ظلم نہ کریں۔ اب زمانہ بدل چکا ہے لوگ کبوتر سے نامہ برکا کام نہیں لے رہے تو جاسوسی کون کرائے گا....
٭....٭....٭