عبادت
قرآن مقدس کی رو سے انسان کی تخلےق بے مقصد نہےں ہے۔ بلکہ اس کی زندگی کا اےک واضع اور غےر مبہم مقصد ہے،اور وہ ہے ”عبادت“۔لفظ ”عبادت“سے ذہن فوراً کچھ اےسے معمولات کی طرف جاتا ہے ۔ جو عام طور پر عبادت کے حوالے سے ”متعارف“ہےں ۔ان معمولات کے عبادت مےں ہوتے ہےں کوئی شک وشبہ نہےں لےکن واقعہ ےہ ہے کہ اسلام مےں تصور عبادت اےک وسےع مفہوم کا حامل ہے۔
لغتِ عرب مےں انتہائی انکساری اور عاجزی کو ”عبادت“کہاجاتا ہے۔ امام راغب اضفہانی کہتے ہےں عبادت کا معنی ہے غاےةُ التذلل ےعنی انتہاءدرجہ کی انکساری ،صاحب لسان العرب ابن منظور لکھتے ہےں : معنی العباد ة فی اللغة الطاعة مع الخضوع ۔ عبادت کے معنی ایسی اطاعت کے ہےں جس مےں خضوع پاےا جائے۔
گو ےا کہ لفظ” عبادت“ اپنی ذےل مےں انتہائی عاجزی ،انکساری اور اظہار فروتنی کا مفہوم رکھتا ہے۔ قرآن مقدس مےں عبادت کا متضاد لفظ ”تکبر“استعمال ہواہے۔ ٭جو لوگ مےری عبادت سے تکبر کرتے ہےں وہ سب جہنم مےں داخل ہوں گے۔ (المومن 60)٭اور جسے اللہ کی عبادت سے عار ہو اور وہ تکبر کرے تو اللہ ان سب کو جلد ہی اپنے ہاں جمع کرے گا۔ (النساء172)
عبادت کا اصل مفہوم عاجزی اور انکساری ہے۔ لےکن جب اس کی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف ہو تو اس مےں محبت والفت کا عنصر بھی شامل ہوجاتا ہے۔ ےعنی عبادت الہٰی وہ عاجزی اور انکساری ہے ،جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت الفت مےں وارفتہ ہوکر کی جائے۔ امام ابن کثےر کہتے ہےں : عبادت کے لغوی معنی پست ہونے کے ہےں ۔ کہتے ہےں ”طرےق معبد “ےعنی وہ راستہ جو پامال ہوتا ہو۔” بعےر معبد “وہ اونٹ جو سرکشی چھوڑ کر مطیع وفرمابردار بن گےا ہو۔ شرےعت مےں اس سے مراد ایسی کےفےت ہے ۔ جس مےں انتہائی محبت کے ساتھ انتہائی خضوع اور خوف شامل ہو۔“(تفسےر ابن کثےر )علامہ ابن قےم لکھتے ہےں ۔ ”عباد ت کے دوجز ہےں ۔انتہائی محبت اور انتہائی عاجزی اور انتہائی پستی کے ساتھ “۔
گوےا کہ عبادت زبردستی کی عاجزی ےاانکساری کا نام نہےں بلکہ دل کے مےلان کا نام ہے،جو پورے شعور سے اےک بالاتر ہستی کا اعتراف کرے ، اس کے جمال کی محبت سے سرشار ہوکر اور اس کے جلال کی ہےت سے مرعوب ہوکر پوری آمادگی کے ساتھ اس کے سامنے سر تسلےم خم کردے، اور ےہ جذبہءتسلےم ورضا ءچند معمولات ورسومات تک محدود نہےں بلکہ پوری انسانی زندگی کے تمام اعمال کو محےط ہے۔ ہروہ عمل جو اللہ کے عطاءفرمودہ ضابطے کے مطابق ہو اور جس کا منشاءومقصود رضا ئے الہٰی ہو ”عبادت“ ہے۔
ہر جا کہ می رود منِ بے چارہ می روم
باشد عنانِ ما بکفِ اختےارِ دوست