چودھری نثار کیا پارٹی کے ساتھ چل پائیں گے؟
چودھری نثار نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پارٹی نے ٹکٹ سیاسی یتیموں کو دئیے، عورت راج کے مخالف نے اپنی بیٹی پارٹی پر مسلط کردی۔ کارکنوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت سے متعلق سوال کیا تو چودھری نثار نے کہاکہ آپ الیکشن پر توجہ دیں، بہتر فیصلہ کرونگا۔
چودھری نثار کوئی بھی فیصلہ کرنے میں آزاد و با اختیار ہیںتاہم انہوں نے یہ کہہ کر اپنے جھکاﺅ کا عندیہ دے دیاکہ پی ٹی آئی میں 10 تو مسلم لیگ (ن) میں 100 سے زائد خامیاں ہیں۔انہوں نے اپنی دانست میں میاں نواز شریف کو درست مشورے دیئے مگر بطور ورزیر داخلہ ان کے کئی فیصلے نہ صرف میاں نواز شریف بلکہ مسلم لیگ ن کی حکومت کیلئے بھی آزمائش ثابت ہوئے۔ ایان علی اور ڈاکٹر عاصم کے حوالے سے مبینہ طور پر ان کا سٹینڈ پارٹی قیادت کی منشاءو مرضی کا عکاس نہیں تھا جس کے باعث مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے مابین پُر نہ ہونے والی خلیج پیدا ہوئی جبکہ یہ وہی پارٹی تھی جس نے اقتدار میں آ کر مسلم لیگ ن کو بھی وزارتیں دیں۔ عمران و قادری کے دھرنوں کے دوران بھی پی پی حکومت کے ساتھ کھڑی تھی۔ میاں نواز شریف کی نااہلیت کے بعد پی پی پی نے مسلم لیگ ن کے بارے میں اپنے معاندانہ رویئے کے اظہار سے گریز نہیں کیا۔ پارٹی قیادت کے بارے میں چودھری نثار کی رائے اور خیالات پارٹی کے اندر کنفیوژن پیدا کرتے رہے ہیں۔ مریم نواز کے حوالے سے انکے بیانات قابل اعتراض ہیں۔ انہوں نے ان کی قیادت میں کام کرنے سے انکار کیا، یہ معاملہ میاں شہباز شریف کے پارٹی صدر بننے سے ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ بالفرض مریم نواز پارٹی سربراہ بنتیں تو عورت کی سربراہی اور کم عمری کی باتیں بلاجواز ہیں۔ پارٹی ڈسپلن کے پیش نظر ایسی باتیں تو شاید منڈیلا اور مہاتیر محمد بھی نہیں کرتے ہونگے۔ چودھری نثار نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے اس سے پارٹی کیلئے آسانی پیدا ہوئی ہے۔ ان کا پارٹی کے ساتھ چلنا مشکل نظر آتا ہے اس لئے یہ خود انکے اپنے مفاد میں ہے کہ پارٹی سے راہیں الگ کرنے کا بھی اعلان کر دیں۔ مسلم لیگ (ن) اب بھی اس پوزیشن میں ہے کہ ایک کے جانے پر دس آنے کو تیار ہیں۔