کابینہ کی تشکیل میں تاخیر
اتحادی جماعتوں کے مابین وزارتوں کی تقسیم کے معاملات کی وجہ سے صوبہ خیبرپی کے میں پاکستان تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کی کابینہ کی تشکیل تاحال نہ ہوسکی ہے جبکہ وفاقی کابینہ کے وزراءنے وزارتوں کے قلمدان سنبھال لئے ہیںتاہم موجودہ قومی اوربین الاقوامی حالات کے تناظرمیں انتہائی اہمیت اورحساسیت کے حامل صوبہ خیبرپی کے سے پاکستان کی 25رکنی وفاقی کابینہ میںصرف ایک وفاقی وزیرلیاگیاہے۔ صوبہ کے حصہ میں آنے والی مذہبی امور کی نسبتاً کم اہم وزارت ضلع مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے گجربرادری کے غیرمتنازعہ لیڈر سردارمحمدیوسف کو دی گئی ہے جو عام انتخابات سے چندروزقبل پاکستان مسلم لیگ(ن) میں شامل ہوئے اور ان کے صاحبزادے شاہجہان یوسف پی پی پی حکومت کے خاتمہ تک اس میںمسلم لیگ (ق)کے کوٹہ میںوزیر مملکت تھے سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق صوبہ خیبرپی کے اورصوبہ کی پاکستان مسلم لیگ(ن) کوایک طویل عرصہ سے پارٹی قائدمیاںنوازشریف کی مناسب توجہ نہیں مل رہی ہے جس کااندازہ اس امرسے لگایاجاسکتاہے کہ گذشتہ عام انتخابات کے دوران ایک آدھ دن کے سوامیاںنوازشریف صوبائی دارالحکومت پشاورسمیت صوبہ کے بیشتر علاقوں میںاپنی جماعت کے انتخابی امیدواروں کے جلسوں کو وقت نہ دے پائے جبکہ اس کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے خیبرپی کے کے طول وعرض میں بڑے بڑے انتخابی جلسے کئے ۔صوبہ میں ایک عرصہ تک تنظیم نو کے نام پر مسلم لیگ (ن)کی اندرونی کھینچاتانی سے پارٹی کے غیرمتحرک رہنے ،خیبرپی کے میںتحریک انصاف کی سونامی اورپارٹی کی مرکزی قیادت کی خاطرخواہ توجہ نہ ہونے کی اس تمام صورت حال کے باوجودن لیگ صوبہ خیبرپی کے کی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے بعد دوسری بڑی پارلیمانی پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے جس کی نشستوں کی تعدادجے یوآئی(ف)، عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلزپارٹی،جماعت اسلامی، شیرپاﺅ کی قومی وطن پارٹی کی نشستوں سے زیادہ ہے۔ ان تجزیہ نگاروں کے مطابق اگرمالاکنڈ،مردان اورپشاورڈویژنوںمیں جن پارٹی رہنماﺅں کوپارٹی ٹکٹ دینے اوروہاں کے معاملات کومختار بنایاگیاتھا کچھ بہترکارکردگی دکھاتے اور اس کے ساتھ میاں نواز شریف عام انتخابات کے دوران صوبہ خیبرپی کے کو اتناوقت بھی دیتے جتناانہوں نے سندھ کودیا توصوبہ خیبرپی کے کے انتخابی نتائج کہیںبہترہوتے حالانکہ پاکستان مسلم لیگ (ن)کے لئے صوبہ خیبرپی کے میں پارٹی قیادت اورکارکنوں کی خدمات دیگر صوبوں کے مقابلہ میں اس لحاظ سے کہیں زیادہ ہیں کہ گذشتہ دور میںخیبرپی کے پنجاب کے بعد واحد صوبہ تھاجس نے پرویزمشرف دورکے انتخابات میںبھی ملک کے تینوں قانون ساز ایوانوں (صوبائی ، قومی اسمبلی اورسینیٹ) میںمسلم لیگ(ن)کونمائندگی دے کرمخالفین کے اس پروپیگنڈے کوزائل کردیاتھاکہ مسلم لیگ (ن) صرف پنجاب کی جماعت ہے جبکہ اس سے قبل 12اکتوبر1999ءکے بعدجب مسلم لیگ(ن)اوراس کی قیادت پرمشکل وقت آیا توجبر کے اس دور میں اسلام آباد میں پارٹی کے مرکزی اجلاس میں جنرل پرویزمشرف کے اقدام پر صرف ©ایک بے جان افسوس کااظہار ہی کیاجاسکا۔جس کے فوراً بعدپارٹی کے صوبائی صدرپیرصابرشاہ نے اپنی رہائش گاہ پر پارٹی کی صوبائی مجلس عاملہ کا اجلاس بلاکرجنرل پرویز مشرف کے اقدام کوآمرانہ قراردیتے ہوئے اس کے خلاف علم بغاوت بلندکردیاگیااور اس کے خلاف صوبہ میںاحتجاج کا اعلان کیایہ وہ وقت تھا جب دیگرصوبوں میںپارٹی کے بڑے بڑے جغادری قائدین پارٹی چھوڑرہے تھے۔ لاہورسمیت ملک بھر میںپارٹی دفاترپرقبضے ہو رہے تھے تو صوبہ خیبرپی کے کی مسلم لیگ (ن) نے نہ توآمرکی گودمیں پناہ لینے والوں کو پارٹی کے کسی دفترپرقبضہ کرنے دیااورنہ ہی میاں نوازشریف کاساتھ چھوڑااسی صوبہ کی مسلم لیگ(ن)نے نیب اوردیگرریاستی اداروںکے دباﺅ اورجبرکوخاطر میںنہ لاتے ہوئے اس آمرانہ دورمیں پارٹی کاپہلاکنونشن منعقدکرکے پورے ملک کویہ پیغام دیا کہ میاںنوازشریف کی پاکستان مسلم لیگ ابھی زندہ ہے اور صوبہ خیبرپی کے کے لیگی قائدین اورکارکنوںکے حوصلے توڑنے کے لئے اسی روزہم خیال لیگ کے سرپرست اعلیٰ میاںمحمد اظہر نے پشاور میں اپنے ایک ہم خیال ساتھی کے گھربیٹھ کریہ اعلان کردیاکہ اب ن لیگ زیادہ دیر نہیںرہے گی کیونکہ اس کے صوبائی صدرپیرصابرشاہ کو آج نیب گرفتارکرلے گی لیکن میاں اظہر کی یہ دھمکی پیرصابرشاہ اوران کے ساتھیوں کے حوصلہ کو توڑنہ سکی اور وہ پہلے سے کہیںزیادہ جوش وجذبہ سے احتجاج کو منظم اورفعال کرتے رہے یہ صوبہ خیبرپی کے کی مسلم لیگ(ن) تھی جس نے بیگم کلثوم نوازکوپشاورسے جنرل پرویز مشرف کے خلاف احتجاجی تحریک کے آغازکی دعوت دی لیکن بدھ5جون کو میاںنوازشریف جب تیسری مرتبہ وزیراعظم پاکستان کے عہدے کاحلف لے رہے تھے توصوبہ خیبرپی کے سے پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری رحمت سلام خٹک سمیت کسی صوبائی عہدیدارکو اس تاریخی تقریب میں شرکت کی دعوت تک نہ دی گئی حالانکہ یہ وہی رحمت سلام خٹک ہیں جو پاکستان بھر میں مسلم لیگ(ن)کے اکلوتے ضلع ناظم تھے لیکن ضلع ناظم ہونے کے باوجود انہوں نے 10ستمبر 2007کو میاں نوازشریف کی پاکستان آمدپرصوبہ کے جنوبی اضلاع سے اسلام آباد ائیرپورٹ پہنچنے والے جلوس کی قیادت کی خوشحال گڑھ کے مقام پر پنجاب پولس نے اس جلوس کوروکتے ہوئے لیگی کارکنوں کووحشیانہ تشددکانشانہ بنایاجس کے بعد پاکستان مسلم لیگ(ن)کے یہ اکلوتے ضلع ناظم جنرل پرویزمشرف کی صدارت کے خاتمہ تک پنجاب پولیس کے مفرور تھے کہ ان کے خلاف پولیس چوکی جھنڈکو نذرآتش کرنے اورپولیس اہلکاروںکا سرکاری اسلحہ چھیننے کے پرچے درج تھے جبکہ پیرصابرشاہ کی قیادت میں ہزارہ ڈویژن سے لیگی کارکنوں کا جلوس حسن ابدال میں پولیس کی فائرنگ، آنسوگیس اورلاٹھی چارج سے نڈھال اسلام آبادکی جانب پیش قدمی کرتے رہے۔ آج جب وفاق میں برسراقتدارپاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے مختلف عہدوںپرتقرری کےلئے خیبرپی کے سے پارٹی کے منتخب اورغیرمنتخب رہنماﺅںکے نام گردش میں ہیں توپیرصابرشاہ کا نام ونشاں دوردورتک نظرنہیںآرہا۔صوبہ کے ان سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق وفاقی کابینہ میں پختون اورغیرپختون کے تنازعات اچھالنے والے دانشوروں کوشائد یہ علم نہیں کہ مسلسل جدوجہد،مستقل وفاداری اوربے پناہ قربانیوں کے باوجود پارٹی اور اس کی قیادت کی جانب سے نظراندازہونے کی اس تمام صورتحال میںبھی پارٹی کے صوبائی صدر پیرصابرشاہ پرانی تنخواہ (یاشائد اس سے بھی کم )پرکام کرتے رہیں گے کہ غیرمتزلزل وفاداری اوروابستگی پختونوںکے مشوانی قبیلہ کے خون میں رچی بسی ہے اوراپنے قبیلہ کے ایک سردارہونے کے ناطہ پیرصابرشاہ کو ان روایات کی پاسداری کرنی ہے لیکن خیبرپی کے جیسے اہم اور حساس خطہ کے لیگی کارکنوںمیںیہ احساس بے چینی واضطراب ضرورپایاجارہا ہے کہ ان کی جماعت کے قائد کے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے باوجود ان کے لئے آزمائش کا وہ دور ابھی ختم نہیں ہواجو12 اکتوبر1999کی ایک ملگجی شام شروع ہواتھا۔