سندھ :پیپلز پارٹی مشکلات میں گھر گئی‘ سنگین مشکلات کا سامنا
سندھ میں حکومت بنانے کے بعد پیپلز پارٹی مشکلات میں گھر گئی ہے۔ ایک جانب اس کو اپنے گڑھ لیاری میں امن و امان کے سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے، تو دوسری جانب پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان ٹھن گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سیّد قائم علی شاہ نے حلف اٹھانے کے فوراً بعد لیاری کا دورہ کیا تھا لیکن جس روز سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی ہے۔ لیاری میدان جنگ بنا ہوا ہے اور بموں کے دھماکے ہو رہے ہیں۔ شہر کے دوسرے علاقوں کے حالات بھی مخدوش ہیں اور ٹارگٹ کلنگ عروج پر ہے۔لیاری کے حالات درست کرنے کی ذمہ داری پیپلز پارٹی پر اس لئے بھی زیادہ عائد ہوتی ہے کہ یہ بھٹو کا قلعہ اور جیالوں کا پاور بیس ہے حالیہ الیکشن میں جہاں پیپلز پارٹی کا کراچی میں صفایا ہو گیا وہاں لیاری کے عوام نے بھرپور مینڈنٹ دیا جس کے عوض لیاری کے عوام امن کی توقع کرتے ہیں۔ لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی لیاری میں گھر گئی ہے اور آپ اپنے دام میں صیاد آگیا ہے۔ پیپلز پارٹی کا المیہ یہ ہے کہ اس نے سندھ میں حکومت تو بنالی لیکن ترجیحات کا تعین نہیں کر سکی۔ قائم علی شاہ 5سال تک لیاری میں داخل نہیں ہوسکے حلف اٹھانے کے بعد ان کی واحد کامیابی یہ تھی کہ اہلیان لیاری نے ان کے لیے دیدہ دل فراش کر دیئے اور لیاری جو دو سال سے نوازشریف زندہ باد اور غوث علی شاہ زندہ باد کے نعروں سے گونج رہا تھا وہاں قائم علی شاہ کو پذیرائی مل گئی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں آپریشن کے بعد پیپلز پارٹی اور پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عذیر بلوچ کے راستے جدا ہو گئے تھے اور عذیر بلوچ نے لیاری ، پیپلز امن کمیٹی کا نام تبدیل کر کے کراچی سٹی الائنس رکھ دیا تھا۔ ایک نجی چینل کے اینکر کو انٹرویو دیتے ہوئے عذیر بلوچ نے کہا تھا کہ میں نے پیپلز پارٹی پر لعنت بھیج دی اور ان پر تھوک دیا۔ اب اپنے تھوک کو نہیں چاٹوںگا۔ پیپلز امن کمیٹی کے رہنما بھی نجی محفلوں میں کہتے تھے کہ لیاری آپریشن کے بعد پیپلز پارٹی کے ساتھ مفاہمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس دوران لیاری کی تمام دیواروں پر نواز شریف زندہ باد مسلم لیگ زندہ باد کے نعرے لکھے گئے تھے اور نواز شریف کی بڑی بڑی تصاویر چسپاں کی گئی تھیں۔حقیقت یہ ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی نے پہلے دن سے تصادم اور محاذ آرائی کی پالیسی اپنائی ہے۔ بعض حلقوں کے مطابق اس حکمت عملی کے پس منظر میں پارٹی کے انتہا پسند بیٹھے ہیں جنہوں نے ایک جانب اویس مظفر کو وزیر اعلیٰ نہیں بننے دیا تو دوسری جانب ایم کیو ایم کو حکومت میں شمولیت کی مخالفت کر کے مسائل پیدا کر دیئے انتہا پسندوں کا یہ ٹولہ صدر آصف علی زرداری کو قدم قدم پر قوم پرستوں سے خوفزدہ کرتا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ قوم پرست سندھ کارڈ استعمال کر کے پارٹی کا جنازہ نکال دیں گے۔ حالانکہ قوم پرستوں کو حالیہ الیکشن میں عبرتناک اور شرمناک شکست ہوئی۔ قادر مگسی کی سندھ ترقی پسند پارٹی کو پورے صوبہ میں 50ہزار ووٹ ملے اور تمام قوم پرست جماعتوں کے ووٹ ایک لاکھ کا ہندسہ عبور نہیں کر سکے جن جماعتوں نے قوم پرستوں سے اتحاد کیا ان کو نقصان ہوا جن میں سرفہرست فنکشنل مسلم لیگ ہے۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی نے سندھ کارڈ کی بدولت میدان مارا۔ صدر نے خوابوں کے شہزادے منظور وسان کے ذریعہ یہ پیش گوئی کرائی تھی کہ پیپلز پارٹی صوبائی اسمبلی کی 73نشستیں حاصل کرے گی، لیکن پیپلز پارٹی نے 73کے بجائے 86نشستیں حاصل کیں جو کہ سندھ میں اس کا سب سے کم نشستیں حاصل کرنے کا ریکارڈ بھی ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی نشستوں اور مخالفین کی نشستوں کی تعداد میں زیادہ فرق نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کو ایوان میں صرف چار ووٹوں کی سبقت حاصل ہے۔ مسلم لیگ چاہے تو فارورڈ بلاک بنا کر سندھ میں حکومت بناسکتی ہے۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کسی صوبے کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ حکومت بنانے سے قبل پیپلز پارٹی کو تمام فیصلہ سا ز اداروں نے مشورہ دیا تھا کہ وہ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کریں تاکہ حکومت مستحکم قائم ہو اور اس کو گرائے جانے کا خطرہ نہ ہو لیکن پارٹی نے ایک کمزور حکومت کی تشکیل کو ترجیح دی جس کے اندر اس قدر اختلافات ہیں کہ کابینہ کی تشکیل کے 15روز بعد تک قلمدانوں کی تقسیم پر اتفاق رائے نہیں ہوا۔ سارے وزیر ایسے محکمے چاہتے ہیں جو کہ سونے کی چڑیا کہلاتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے سامنے 12ایسے ارکان سینہ تان کر کھڑے ہیں جو کہ وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے۔پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کرنے کی نہ سنجیدہ کوششیں کیں جبکہ پارٹی کا ایک گروپ ایم کیو ایم کے خلاف صف آرا ءہو گیا۔ لیاری امن کمیٹی نے بھی ویٹو پاور استعمال کیا اور کہا کہ ایم کیو ایم کو حکومت سازی میں شریک کیا گیا تو ان کا ساتھ نبھانا مشکل ہو گا۔ دوسری جانب اہم وزارتوں پر اختلافات پیدا ہو گئے۔ صدر آصف علی زرداری نے ایم کیو ایم کو ساتھ ملانے کی ہدایت کی اور ایم کیو ایم کو سابقہ وزارتیں دینے کی منظوری دیدی تھی لیکن ایم کیو ایم نے امور نوجوانان، اوقاف، زکواة عشر اور انفارمیشن نٹیکنالوجی کی وزارتوں پر اکتفا کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے سے نالاں اور ناراض دکھائی دیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ سیّد قائم علی شاہ کا کریڈٹ یہ ہے کہ انہوں نے کراچی کا کنٹرول تو سنبھال لیا لیکن کراچی کے معاملات میں چھیڑ چھاڑ سے گریز کیا جس کے باعث معاملات بگڑنے سے بچ گئے۔ آغا سراج درانی اور ذوالفقار مرزا حکومت میں شامل نہیں تھے ورنہ دونوں جماعتوں میں اس وقت جنگ کی کیفیت ہوتی لیکن آنے والوں دنوں میں خیر کی کوئی توقع رکھنا حماقت ہو گی۔ لیاری امن کمیٹی سے اختلافات کے باعث ایم کیو ایم 5سال میں تین بار حکومت سے الگ ہوئی آنے والے دنوں میں دونوں جماعتوں کے درمیان خلیج مزید وسیع ہو گی۔ متحدہ قومی موومنٹ نے الزام عائد کیا کہ پیپلز پارٹی نے لیاری کو جرائم پیشہ عناصر کا گڑھ بنا دیا ہے۔ ملیر سٹی میں متحدہ موومنٹ کے تین ہمدردوں کے قتل کے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی تھی اور دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے سامنے آگئیں۔ ادھر وفاقی حکومت نے کراچی میں امن کی بحالی کے لئے منصوبہ تیار کرلیا ہے، جس کے تحت امن قائم کرنے کے لیے پنجاب پولیس کو لایا جائے گا اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں اس دوران سیاسی وابستگیاں رکھنے والوں کی فہرستیں تیار کرلی گئی ہیں۔ آئی جی بھی پنجاب سے آئیں گے کراچی کے خراب حالات پر مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کو وارننگ جاری کردی اور کہا کہ پیپلز پارٹی نے امن قائم نہیں کیا تو خمیازہ بھگتنا ہو گا۔سیاسی حلقوں میں یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ کراچی کے حالات ٹھیک نہیں ہوئے تو سندھ میں گور نر راج آئے گا۔ ممتاز بھٹو گورنر اور ذوالفقار مرزا ان کے مشیر ہوں گے اور دونوں ملکر کراچی کے حالات ٹھیک کردیں گے۔پیپلز پارٹی کی جانب سے گورنر راج آیا گورنر راج آیا کی رٹ لگانے پر سیاسی حلقے حیران ہیں اور ان کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی سیاسی شہادت کے رتبہ پر فائز ہونے کے لیے بے چین دکھائی دیتی ہے۔ 2008ءمیں صدر آصف علی زرداری نے ملک کو مفاہمت کی سیاست کا تحفہ دیا ۔ 2013ءمیں پیپلز پارٹی کی سیاست کے پیمانے بدل گئے۔ وفاق میں پیپلز پارٹی پر چونکہ احتساب کی تلوار لٹک رہی ہے اس لئے وہ بھیگی بلی بن کر بیٹھ گئی ہے۔ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے جس کے عوض صدر کی ہمشیرہ عذرا پیچوہو سمیت پیپلز پارٹی کے لوگوں کو مختلف کمیٹیوں میں ایڈجسٹ کیا گیا ہے۔
دوسری جانب کراچی کے صوبائی حلقہ پی ایس 128کے پولنگ اسٹیشنوں پر 8جون کو انتخابات مکمل ہو گئے جس میں اہلسنت و الجماعت کے سیکریٹری اطلاعات اورنگ زیب فاروقی فیورٹ تھے اور ان کی ناکامی کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن وہ انتخاب ہار گئے تو سب حیران رہ گئے ان کے ہارنے کے بعد ان 350غداروں کی تلاش شروع ہو گئی جن کے ووٹوں نے انتخاب کا نقشہ پلیٹ دیا کیونکہ پوری آبادی پختون تھی اور ان پولنگ اسٹیشنوں سے متحدہ کو ایک ووٹ ملنے کا امکان نہ تھا اس لئے سب حیران تھے کہ وہ کون غدار ہیں۔ جنہوں نے ایم کیو ایم کے امیدوار کو ووٹ دیا حالانکہ ری پولنگ فوج کی نگرانی میں ہوئی تھی۔ اے این پی اور مسلم لیگ (ن) سمیت تمام جماعتوں نے اورنگ زیب فاروقی کی حمایت کی تھی، لیکن قسمت نے اورنگ زیب فاروقی کا ساتھ نہیں دیا۔ اورنگ زیب فاروقی نے 2400ووٹ حاصل کئے جبکہ وقار حسین شاہ جن کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا 350فیصلہ کن ووٹ حاصل کر لئے وقار حسین شاہ کو 23سو ووٹوں کی لیڈ حاصل تھی اس طرح وہ 209سے جیت گئے۔