اقوام عالم کو اب مصلحتوں کے لبادے اُتار کر بھارتی توسیع پسندانہ ہاتھ روکنا ہوں گے
وزیر اعظم کا بھارتی فوجوں کے ہاتھوں مقبوضہ کشمیر میں بوسنیا جیسی نسل کشی کا اندیشہ اور عالمی برادری کی ذمہ داری
وزیر اعظم عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھی اسی طرح نسل کُشی کی جا سکتی ہے جس طرح 1995ء میں بوسنیا میں کی گئی تھی جہاں سرب فوجوںنے جنگلات میں پیچھا کر کے آٹھ ہزار افراد کو بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا تھا اس لئے عالمی برادری کو کشمیری عوام پر جاری بھارتی مظالم کا نوٹس لینا چاہئے۔ نسل کُشی کی 25 ویں برسی کے موقع پر گزشتہ روز وزیر اعظم نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ سربرینکا میں ہونے والی نسل کُشی انہیں اب بھی یاد ہے۔ ہمیں یہ دیکھ کر دھچکا لگا تھا کہ اقوام متحدہ کی محفوظ پناہ گناہوں میں قتل عام کی اجازت کس طرح دی جا سکتی ہے۔ بوسنیا میں سرب فوجوں نے جن آٹھ ہزار افرادکو بربریت کے ساتھ قتل کیا ان میں اکثریت مسلمان مردوں اور لڑکوں کی تھی۔ اسے یورپ میں جنگ عظیم دوئم کے بعد سب سے بدتر سانحہ قرار دیا جاتا ہے جسے نسل کُشی قرار دیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اس قتل عام سے سبق سیکھنا انتہائی اہم ہے۔ ہمیں کشمیری عوام کے مسائل نظر آ رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں 8 لاکھ بھارتی فوج نے 80 لاکھ کشمیری عوام کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ ہمیں خطرہ ہے کہ وہاں بھی اس طرح کی چیز ہو سکتی ہے۔ عالمی برادری بوسنیا جیسا قتل عام دوبارہ نہ ہونے دے۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے بھی اس تناظر میں وزیراعظم کے موقف کی تائید کی اور اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ کشمیر اور فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ 1995ء کے سرب فوجوں کے ہاتھوں قتل عام سے مماثلت رکھتا ہے۔
یہ درحقیقت مسلم اُمہ کے لئے لمحۂ فکریہ ہے کہ کشمیر ، فلسطین ، بوسنیا ہرزگوانیا اور میانمار میں استعماری قوتوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام پر عالمی قیادتوں تو کجا، خود مسلم قیادتوں نے مصلحتوںکی چادر اوڑھے رکھی ہے اور او آئی سی کے فورم پر بھی محض رسمی احتجاج اور قراردادوں کے سوا کوئی عملی اقدام نہیں اُٹھایا گیا۔ کشمیری اور فلسطینی عوام تو گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصہ سے استعماری قوتوں کے جبر و تسلط سے آزادی کی جدوجہدکرتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں مگر نہ مشرق وسطیٰ میں مسلم برادری کی جانب سے فلسطینیوں کے زخموں پر کوئی مرہم رکھنے کو تیار ہے۔ نتیجتاً امریکی استعمار نے مسلمانوںکے قبلۂ اول مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیل کے لئے اپنا سفارتخانہ قائم کر لیا ہے اور اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام بھی اقوام عالم کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں جو اقوام متحدہ کے دئیے گئے اپنے حق خودارادیت کے حصول کے لئے گزشتہ 72 سال سے بھارتی فوجوں اور پیراملٹری فورسز کے ہر ظلم کا سامنا کرتے ہوئے اب تک اپنے لاکھوں پیاروں کی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں جبکہ ہزاروں عفت مآب کشمیری خواتین اپنی عصمتوں کی قربانیاں دے چکی ہیں جن کے ظالم بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں سہاگ بھی اجڑے ہیں اور انہوں نے اپنے بھائیوں ، بیٹوں، بزرگوں سمیت اپنے خاندانوں کے مردوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے بھارتی فوجیوں کی گولیوں سے چھلنی ہوکر شہید ہوتے دیکھا ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ قوموں کی تاریخ میں آزادی کی خاطر جو قربانیاں کشمیری عوام نے پیش کی ہیں‘ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی جبکہ اب بھارت کی مودی سرکار نے جو اپنے پاکستان اور مسلم دشمن ایجنڈے کے تحت بھارت میں ہندو انتہاپسندی کو فروغ دے رہی ہے‘ کشمیری عوام کو عملاً صفحۂ ہستی سے مٹانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ اس مقصد کے تحت ہی مودی سرکار نے گزشتہ سال پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اسے بھارت میں ضم کرنے کی سازش کی اور کشمیری عوام کی ممکنہ مزاحمت روکنے کیلئے مقبوضہ وادی کو کرفیو کے حوالے کر دیا جہاں مزید دو لاکھ بھارتی فوجیوں کی نفری بھجوا کر کشمیریوں کو گھروں میں محصور کر دیا گیا اور ان کا کاروبار زندگی تباہ کرکے ان کا باہر کی دنیا سے رابطہ مکمل منقطع کر دیا گیا۔ بھارت کا جبر و تسلط کا یہ سلسلہ گزشتہ 343 روز سے جاری ہے اور اس دورن کشمیری عوام کا قتل عام بھی جاری رکھا گیا ہے جبکہ کنٹرول لائن پر پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بھی مسلسل بڑھائی جاتی رہی ہے۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور گزشتہ روز بھی کنٹرول لائن کے سماہنی سیکٹر میں بھارتی فوج نے شہری آبادی پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کی جس سے متعدد رہائشی مکانات کو نقصان پہنچا جبکہ پاک فوج نے دندان شکن جواب دیکر دشمن کی گنیں خاموش کرا دیں۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر کے ضلع کپواڑہ میں گھر گھر آپریشن کے دوران بھارتی فوجوں نے مزید دو نوجوان شہید کر دیئے اور حریت رہنما فاروق توحیدی کو گرفتار کر لیا۔
یہ طرفہ تماشہ ہے کہ مقبوضہ وادی میں کنٹرول لائن پر بھارتی فوجوں کی جارحانہ‘ سفاکانہ کارروائیوں کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج کا سلسلہ گزشتہ ایک سال سے جاری ہے مگر بھارت کی مودی سرکار عالمی برادری کا کوئی دبائو قبول کرنے کی بجائے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر مظالم کا سلسلہ دراز کر رہی ہے اور اس کے حوصلے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ بھارتی فوجیں اب لداخ میں چین کی سرحد کے قریب چینی فوجوں کے ساتھ بھی چھیڑچھاڑ میں مصروف ہیں اور چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے ہاتھوں دو بار ہزیمت اور جانی نقصان اٹھا کر اور پسپائی اختیار کرکے بھی جارحانہ عزائم سے باز نہیں آرہیں جبکہ پاکستان پر تو باقاعدہ جنگ مسلط کرنے کا مودی سرکار عندیہ دیتی نظر آتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان یو این جنرل اسمبلی سمیت نمائندہ عالمی اداروں اور اقوام عالم کو متعدد بار بھارتی جنونی عزائم سے آگاہ اور اس بنیاد پر عالمی برادری سے بھارتی جنونی ہاتھ روکنے کی ٹھوس منصوبہ بندی کی اپیل کر چکے ہیں مگر مصلحتوں کا شکار عالمی قیادتوں نے اس معاملہ پر اب تک کوئی عملی پیش رفت نہیں کی۔ اس تناظر میں کوئی بعید نہیں کہ کشمیریوں اور بھارتی مسلمان اقلیتوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے عزائم رکھنے والی مودی سرکار بوسنیا میں ہونے والے 1995ء کے قتل عام کی طرح کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کا بھی قتل عام نہ شروع کر دے جس کیلئے اس کے حوصلے پہلے ہی بلند ہیں۔ اس لئے بھارتی فوجوں کے ہاتھوں کسی بڑے انسانی المیے کو روکنے کیلئے عالمی برادری اور اس کی قیادتوں کو اب مصلحتوں کے لبادلے اتارکرفوری اور ٹھوس لائحہ عمل طے کرنا ہو گا بصورت دیگر مودی سرکار کی ہذیانی کیفیت اس خطے ہی نہیں‘ پوری دنیا کے امن و سلامتی کو لے ڈوبے گی۔