ہارس ٹریڈنگ اور دوسرے حکومتی اقدامات سے سیاسی کشیدگی بڑھے گی تو جمہوریت کا نقصان ہوگا
چیئرمین سینٹ کیخلاف اپوزیشن اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کیخلاف حکومتی اتحادیوں کی تحریک عدم اعتماد
اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی نے پاکستان نیشنل پارٹی کے سربراہ میرحاصل بزنجو کو چیئرمین سینٹ کیلئے متفقہ امیدوار نامزد کرتے ہوئے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کیخلاف تحریک عدم اعتماد گزشتہ روز سینٹ سیکرٹیریٹ میں جمع کرادی۔ عدم اعتماد کی یہ ریکوزیشن اپوزیشن جماعتوں کے 44 ارکانِ سینٹ کے دستخطوں کے ساتھ جمع کرائی گئی جبکہ سینٹ میں حکمران پی ٹی آئی اور اسکی اتحادی جماعتوں کی جانب سے بھی جمعۃ المبارک کے روز ڈپٹی چیئرمین سینٹ سلیم مانڈوی والا کیخلاف تحریک عدم اعتماد سینٹ سیکرٹیریٹ میں جمع کرادی گئی۔ جمعرات کے روز اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی کے اجلاس میں جو کمیٹی کے کنونیئر اکرم درانی کی زیرصدارت منعقد ہوا‘ چیئرمین سینٹ کیلئے مسلم لیگ (ن) کے راجہ ظفرالحق اور بی این پی کے میرحاصل بزنجو کے ناموں پر غور ہوا جبکہ میٹنگ میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کا ایک پیغام بھجوایا گیا جس میں میاں نوازشریف کی جانب سے میر حاصل بزنجو کو چیئرمین سینٹ کیلئے اپوزیشن کا متفقہ امیدوار بنانے کی تجویز دی گئی۔ اسکی روشنی میں رہبر کمیٹی نے متفقہ امیدوار کی حیثیت سے میرحاصل بزنجو کے نام کا اعلان کردیا۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی‘ پیپلزپارٹی کے نیربخاری اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے رہنمائوں کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ تمام جماعتیں چیئرمین سینٹ کے متفقہ امیدوار کی حیثیت سے میرحاصل بزنجو کو ووٹ دینگی اور انہیں بھاری اکثریت کے ساتھ چیئرمین سینٹ منتخب کرایا جائیگا۔ انہوں نے بتایا کہ عدم اعتماد کی ریکوزیشن کے بعد کم سے کم سات دن اور زیادہ سے زیادہ 14 دن کے اندر سینٹ کا اجلاس ہونا لازم ہے جبکہ حکمران سینٹ اجلاس سے راہ فرار اختیار کررہے ہیں۔ کسی کو جمہوریت اور آئین کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔
دوسری جانب صادق سنجرانی کیخلاف عدم اعتماد کی ریکوزیشن آنے کے بعد حکمران پی ٹی آئی‘ اسکے اتحادی اور فاٹا کے ارکان سینٹ نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا اور انہیں مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی۔ خبررساں ایجنسی کے مطابق چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے کہا کہ وہ عدم اعتماد کی ریکوزیشن سے ہرگز پریشان نہیں بلکہ خوش ہیں۔ انہوں نے گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد پارلیمنٹ ہائوس میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میری خوشی کو آپ خود محسوس کر سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے چیئرمین سینٹ سے ملاقات کے دوران انکی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ آپ کیخلاف تحریک عدم اعتماد ہم سب مل کر ناکام بنائیں گے۔ اس سلسلہ میں سینٹ کے قائد ایوان شبلی فراز اور اعظم سواتی نے نمبرگیم کے حوالے سے وزیراعظم کو بریفنگ دی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والے بتائیں کہ چیئرمین سینٹ کو ہٹانے کی کوششیں کونسی جمہوری اقدار ہیں۔ انکے بقول مفاد پرست لوگ جمہوریت کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
منتخب ایوانوں میں وزیراعظم‘ چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینٹ اور قومی و صوبائی اسمبلی کے سپیکر‘ ڈپٹی سپیکر کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانا اور ہائوس کے اندر آئینی طریقہ کار کے مطابق تبدیلی لانے کی کوششیں کرنا بھی بلاشبہ پارلیمانی جمہوری نظام کا حصہ ہے۔ اسی طرح آئین کے تحت پارلیمنٹ میں صدر کے مواخذہ کی تحریک بھی پیش ہو سکتی ہے۔ ماضی میں صدر‘ وزیراعظم‘ چیئرمین سینٹ‘ سپیکر‘ ڈپٹی سپیکر کیخلاف عدم اعتماد کی تحریکیں پیش ہوتی رہی ہیں جن میں سے بیشتر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئیں۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کیخلاف 88ء کی اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد ناکامی سے دوچار ہوئی اور 2008 ء کی اسمبلی میں صدر پرویز مشرف کیخلاف اپوزیشن کی جانب سے مواخذہ کی تحریک پیش کی گئی جس میں ووٹنگ کی نوبت آنے سے پہلے ہی مشرف اپنے منصب سے استعفیٰ دیکر ایوان صدر سے باہر آگئے جبکہ 90ء کی پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک اس لئے کامیاب ہوئی کہ یہ تحریک سرکاری بنچوں پر موجود حکمران مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی جانب سے ہی پیش کی گئی تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی انہیں اس منصب پر منتخب کرانے والی جماعت پیپلزپارٹی کی جانب سے دوسری اپوزیشن جماعتوں کی معاونت سے پیش کی گئی ہے جس کی کامیابی کے امکانات اسی بنیاد پر زیادہ ہیں کہ آج سینٹ میں اپوزیشن کی نشستوں پر مجموعی 66 ارکان موجود ہیں جبکہ سرکاری بنچوں پر موجود ارکان کی تعداد صرف 37 ہے۔ اس طرح اعداد و شمار کا کوئی ہیرپھیر چیئرمین سینٹ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنانے کی نوبت نہیں لاسکتا ماسوائے اسکے کہ حکومت اور اسکے اتحادیوں کی جانب سے ہارس ٹریڈنگ کی بری روایت کا اعادہ کرتے ہوئے اپوزیشن ارکان کی مطلوبہ تعداد کو خرید کر انکی ہمدردیاں حاصل کرلی جائیں۔ یہی معاملہ نمبرگیم کی بنیاد پر ڈپٹی چیئرمین سینٹ سلیم مانڈوی والا کیخلاف سرکاری بنچوں کی جانب سے پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بنانے کے حوالے سے درپیش ہوگا کیونکہ اس تحریک کو کامیاب بنانے کیلئے سرکاری بنچوں پر مطلوبہ ارکان موجود نہیں ہیں چنانچہ چیئرمین سینٹ کیخلاف اپوزیشن کی تحریک ناکام بنانے اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کیخلاف سرکاری بنچوں کی تحریک کامیاب کرانے کا معجزہ صرف ہارس ٹریڈنگ کے زور پر ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ اگر وزیراعظم عمران خان اور دوسرے حکومتی اکابرین چیئرمین سینٹ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے ناکامی سے دوچار ہونے کے داعی ہیں تو اس سے بادی النظر میں پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمن کا یہ کہنا درست ہے کہ حکمران پی ٹی آئی چیئرمین سینٹ کے معاملہ میں ہارس ٹریڈنگ کی منصوبہ بندی کئے بیٹھی ہے۔
ہماری سیاست کا یہی المیہ ہے کہ یہاں اصولوں کی سیاست کی داعی جماعتوں کے قائدین بھی روایتی منافقانہ سیاست کا دامن تھامے نظر آتے ہیں اور وہ ’’جنگ اور محبت میں سب جائز ہے‘‘ کے فلسفہ کے قائل ہی نہیں‘ اس پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہماری سیاست میں آج کے دشمن کل کے دوست بننے اور کل کے دشمن آج کے دوستی کے پلڑے میں آنے میں ذرہ بھر دیر نہیں لگاتے جو ہماری مفاداتی سیاست کا ہی شاہکار ہے۔ اس معاملہ میں وزیراعظم عمران خان کی سیاست تو الٹ پھیر کی نادر مثالیں قائم کرتی نظر آتی ہے جو ایک وقت ایم کیو ایم متحدہ کے قائد الطاف حسین کیخلاف مقدمات درج کرانے لندن تک چلے گئے اور پھر اقتدار کی منزل کے حصول کیلئے اسی جماعت کے ارکان کو ساتھ ملانا انکی مجبوری بن گیا۔ اسی طرح جب گزشتہ سال 2 مارچ کو چیئرمین سینٹ کا انتخاب عمل میں آیا تو عمران خان کی اصولی سیاست اسی پیپلزپارٹی کی قیادت کے ساتھ مفاہمت پر مجبور ہو گئی جسے وہ کرپشن کا شاہکار قرار دیا کرتے تھے۔ انہوں نے 2018ء کے انتخابات سے قبل متعدد بار اس امر کا اظہار کیا کہ وہ حصول اقتدار کیلئے کرپٹ جماعتوں سے شراکت داری کی بھیک نہیں مانگیں گے اور مانگے تانگے کے اقتدار کی بجائے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنا قبول کرلیں گے مگر انتخابات کے بعد اقتدار کی خاطر انہیں اپنے ہدف پر آنے والی جماعتوں کے قائدین کی ہی معاونت حاصل کرنا پڑی۔ اسی طرح وہ اقتدار کی سیاست میں ہارس ٹریڈنگ کے بھی سب سے زیادہ مخالف رہے ہیں مگر اب اپوزیشن کو کمزور کرنے کیلئے وہ اسکی صفوں میں نقب لگا کر اسکے ارکان کو توڑنا بھی معیوب نہیں سمجھتے اور چیئرمین سینٹ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی ایسے ہی کسی معجزے کے تحت ناکام بنانے کا عندیہ دے رہے ہیں۔
ہماری قومی سیاست میں یہی طرز عمل درحقیقت عوام کے دلوں میں پارلیمانی جمہوری نظام کیخلاف بداعتمادی پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے جس سے غیرجمہوری عناصر کو بھی جمہوریت کا مردہ خراب کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس وقت ہماری سیاست میں ذاتی دشمنی تک پہنچنے والی کشیدگی کی جس فضا کا عمل دخل نظر آرہا ہے بدقسمتی سے یہ بھی حکمران پی ٹی آئی کی اپنے مخالفین کیخلاف جارحانہ سیاست کی حکمت عملی کا ہی شاخسانہ ہے جس میں اپوزیشن جماعتوں اور انکی قیادتوں کو زچ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی جبکہ وزیراعظم کی جانب سے آج بھی اپوزیشن کے حوالے سے چوروں‘ ڈاکوئوں اور کسی کرپٹ کو نہ چھوڑنے کے اعلانات منظرعام پر آرہے ہیں جس سے سیاسی افہام و تفہیم کی کوئی گنجائش ہی نہیں نکل پارہی۔ چنانچہ زچ ہوئی اپوزیشن نے بھی ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر حکومت کو زچ کرنے کی ٹھان لی اور حکومت مخالف عوامی تحریک چلانے کے ساتھ ساتھ چیئرمین سینٹ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا بھی فیصلہ کرلیا۔
اگرچہ صادق سنجرانی کا بطور چیئرمین سینٹ پیپلزپارٹی کی معاونت سے انتخاب عمل میں آیا تھا جو اس وقت حکمران مسلم لیگ (ن) کو نیچا دکھانے کی حکمت عملی تھی جبکہ اب وہی پیپلزپارٹی حکمران پی ٹی آئی کو نیچا دکھانے کیلئے مسلم لیگ (ن) کی معاونت سے چیئرمین سینٹ کو ہٹانے کی تحریک لے آئی ہے اور حکمران پی ٹی آئی نے چیئرمین سینٹ کے ساتھ کھڑے ہو کر ان پر حکمران جماعت کا چیئرمین سینٹ ہونے کا لیبل لگادیا ہے۔ چنانچہ اب چیئرمین سینٹ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوگی تو یہ حکومت کی ناکامی سے ہی تعبیر ہوگی۔ اس سے سیاسی شکررنجیوں‘ کشیدگی اور محاذآرائی میں مزید اضافہ ہوگا جس کی بنیاد بھی حکمران پی ٹی آئی نے پیپلزپارٹی کے ڈپٹی چیئرمین سینٹ سلیم مانڈوی والا کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لا کرر کھی ہے۔ خدا نہ کرے کہ اس سے خراب تر ہوتا سیاسی ماحول ماضی جیسے کسی ماورائے آئین اقدام پر منتج ہو۔ اگر ایسا ہوا تو اسکی ذمہ داری ایک دوسرے کیخلاف صف آراء قومی سیاسی قائدین پر ہی عائد ہوگی اور اس کا خمیازہ ملک اور عوام کو بھگتنا پڑیگا۔