ہفتہ‘ 9؍ ذیقعد 1440ھ‘ 13؍جولائی 2019ء
شیخ رشید سے استعفیٰ کا مطالبہ‘ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا
گزشتہ روز لاہور سے کوئٹہ جانے والی 24 ڈائون اکبر بگٹی ایکسپریس صادق آباد ریلوے سٹیشن پر کھڑی مال گاڑی سے ٹکرا گئی۔ کافی جانی و مالی نقصان ہوا، شنید ہے کہ کانٹے والے کی غلطی تھی۔ آئوٹر سگنل ڈائون کر دیا اور کانٹا نہ بدلا، نتیجتاً فل سپیڈ سے آتی رن تھرو اکبر بگٹی ایکسپریس پلیٹ فارم پر کھڑی مال گاڑی پر چڑھ دوڑی۔ جنہیں شیخ رشید سے خدا واسطے کا بیر تھا‘ اُن کی بن آئی ۔ حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر ’’شیخ رشید استعفیٰ دو‘‘ کا ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یار لوگ اعداد و شمار جمع کئے بیٹھے تھے۔ لکھا ہے کہ جب سے شیخ رشید ریلوے وزیر (اگست 2018ء سے تا حال تقریباً گیارہ ماہ) بنے ہیں۔ ٹرینوں کے 90 چھوٹے بڑے حادثات ہو چکے ہیں۔ جس میں انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ محکمہ کو کروڑوں کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ہے۔ مخالفین نے اعداد و شمار جمع کرنے میں تو بڑی مستعدی دکھائی ، لیکن وہ یہ ثابت نہیں کر سکے اور لاکھ انکوائریاں کرا لیں نہ ثابت کر سکیں گے کہ شیخ صاحب نے کسی ایک گاڑی کا بھی کانٹا خود بدلا، اب وہ دن گئے جب حادثے کی خبر کے پہلو بہ پہلو ریلوے وزیر کے استعفے کی بھی خبر ہوتی تھی۔ شیخ رشید اگرچہ اپنی الگ سیاسی پارٹی رکھتے ہیں لیکن تحریک انصاف کی قیادت کے نزدیک اُن کا مرتبہ ’’سیاسی مرشد‘‘ کا سا ہے۔ اگر شیخ رشید ٹی وی چینلز کے پروگراموں پر رونق نہ لگائے رکھتے تو موجودہ حکومت کا اللہ ہی حافظ تھا۔ آپ ٹرین حادثوں کو چھوڑیں، جن کی موت ٹرین حادثے میں لکھی ہے اُسے کون ٹال سکتا ہے۔ انکوائری میں صرف یہ ہی نہ دیکھا جائے کہ غلطی کس کی تھی، بلکہ یہ بھی دیکھا جائے کہ جس سے غلطی ہوئی ، وہ کہیں نواز شریف کا پرستار تو نہیں تھا۔ ریلوے کا پہلا حادثہ ہوا تھا تو ہمیں شک پڑ گیا تھا کہ ن لیگ والے جس شیخ رشید کو راولپنڈی کی لال حویلی والی قومی اسمبلی کی نشست سے شکست نہ دے سکے اور جسے چینلز پر نہ ہرا سکے، اب وہ یہ فریضہ سگنل مین اور کانٹے والوں کی مدد سے انجام دیں گے۔ اگر شیخ صاحب ریلوے وزیر نہ رہے تو بھی اُنہیں کوئی نہ کوئی وزارت تو دینا پڑے گی، ورنہ چینلز پر ہونے والے دنگل بے مزہ ہو جائیں گے اور ن لیگ اور پیپلز پارٹی والوں کے ’’اندر‘‘ ہونے کی پیشین گوئیاں کون کرے گا؟
٭٭٭٭
گھر کا کھانا منگوانے کے لیے رانا ثنا کی درخواست۔ سیشن عدالت نے سپرنٹنڈنٹ جیل سے جواب مانگ لیا
ہو سکتا ہے کہ ہمارا قیاس درست نہ ہو لیکن گمان یہ ہے کہ سپرنٹنڈنٹ جیل کا جواب یہ ہو گا کہ ’’جناب جیل کے کھانے کا کیا کہنا لذت سے بھرپور ضرورت سے زیاہ مقوی ۔جو کھائے وہ بھی پچھتائے اس لیے کہ پھر اُس کا زیاد ہ وقت کھولی کی بجائے واش روم میں گزرے گا۔ جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔ جواب میں جیل کے کھانے کو من و سلویٰ ثابت کرنے کے لیے یہ بھی لکھ سکتے ہیں کہ جناب جب سے اس آستانے پرتقرری ہوئی ہے فدوی گھر میں کھانا بھول گیا ہے۔ تینوں وقت وہی کھاتے ہیں جو جیل میں پکتا ریندھتا ہے۔ عدالت کی مزید تسلی کے لیے یہ بھی دلیل دی جا سکتی ہے کہ ہر قیدی کا وزن بڑھ گیا ہے بلکہ پنجابی زبان میں پھِٹ گیا ہے۔ بعض قیدی تو جیل کا کھا کھا کر اس قدر طاقت ور ہو گئے ہیں کہ اگر اُن پر دھیان نہ رکھا جائے تو ہر وقت جیل توڑنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ قصہ مختصر کہ جو ایک دفعہ جیل کا کھا گیا ساری عمر اُنگلیاں چاٹتا رہتا ہے لہٰذا فدوی کی رائے میں رانا صاحب کے کھانے کے لئے اُن کے گھر والوں کو تکلیف نہ دی جائے ۔ رانا صاحب نے چند دن جیل کا کھا لیا تو اُن کی جوانی عود نہ کر آئے، تو میرا استعفیٰ میز پر!‘‘
٭٭٭٭
لندن بکنگھم پیلس کا گیٹ پھلانگنے کی کوشش میں ایک شخص گرفتار
راوی لکھتا ہے کہ ملزم کی ابھی تک شناخت نہیں ہو سکی۔ ہمیں تو ’’ملزم‘‘ کی عقل پر شبہ ہونے لگا ہے۔ اب بکنگھم پیلس میں کیا رہ گیا ہے کہ جس کے لیے اُسے گیٹ پھلانگنے کے گناہ بے لذت کا ارتکاب کرنا پڑا۔ تقسیم ہند سے پہلے بکنگھم پیلس کی رونقیں ہی کچھ اور تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ چمن پر خزاں آتی گئی۔ پرنس آف ویلز شہزادہ چارلس کی شادی خانہ آبادی ایمپائر کی خوبصورت ترین لڑکی لیڈی ڈیانا سے ہوئی تو کچھ عرصہ کے لیے پیلس میں بہار آ گئی۔ لیڈی ڈیانا نے طلاق لے لی تو وہ رونقیں ساتھ ہی رخصت ہو گئیں۔ 93 سالہ ملکہ الزبتھ کے خاوند ڈ یوک آف ایڈنبرا بھی سنچری کے قریب پہنچ رہے ہیں اور اب بالکل ہی گوشہ نشین ہو گئے ہیں بلکہ تخت کے وارث ولی عہد شہزادہ چارلس کی کمر بھی جھک گئی ہے۔ ملکہ کے دونوں پوتے شادی کے بعد بکنگھم پیلس سے دور رہنے لگے ہیں۔ غرض ایک بڑھیا جس نے آخری سانس تخت پر لینے کا عزم کر رکھا ہے اور ایک مردِ بزرگ ڈیوک آف ایڈنبرا کے سوا اور دھرا کیا ہے۔ کوئی احمق ہی ہو گا جو ایسے ویرانے کو اپنی کسی واردات کیلئے چنے گا۔ جہاںکبھی لیڈی ڈیانا چہکا کرتی تھیں حسن کی ضیا پاشیاں تھیں ، رات کو بھی جگنوئوں کی روشنی ہوتی تھی۔ اب وہاں اُلو بول رہے ہیں۔ تختِ برطانیہ کے پاس ایک ہی قیمتی چیز رہ گئی ہے اور وہ ہے کوہ نور ہیرا۔ مگر وہ بھی پیلس میں نہیں بلکہ کسی اور جگہ محفوظ ہے۔
٭٭٭٭
ان حالات میں عید پر بڑے مرغ حلال کریں: پشاور ہائی کورٹ
پشاور ہائی کورٹ نے قربانی کے جانور افغانستان لے جانے پر پابندی عائد کر دی اور اس موقع پرجسٹس ابراہیم نے ریمارکس دئیے کہ جس طرح کے حالات ہیں عید پر بڑے مرغ حلال کریں۔ حالات تو واقعی ایسے ہیں کہ چھترا ، بکرا ، دنبہ، اونٹ ، بیل، بچھڑا اور کٹا عام آدمی کی دسترس میں نہیں رہے۔ پچھلے ایک دو برس تک خوشحال لوگ بکرا، دنبہ ، چھترا کی انفرادی قربانی کر لیتے تھے۔ نسبتاً کم آمدنی کے لوگ بڑے جانوروں میں حصہ ڈال کر قربانی کے فریضے سے سبکدوش ہو جایا کرتے تھے لیکن اب بقول جسٹس ابراہیم بلکہ اُنہوں نے موجودہ معاشی حالات پر مشتمل کتابوں کی تفصیلات کے سمندر کو یہ مشورہ دے کر کوزے میں بند کر دیا ہے۔ اگر اب کوئی یہ مسئلہ پوچھے کہ کیا فرماتے ہیں ، مفتیان دین متین بیچ اس مسئلے کے کہ 2019ء میں قربانی کن لوگوں پر واجب نہیں ہے تو عصر حاضر کی زبان میں اس کا جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’نان فائلر‘‘ پر واجب نہیں۔ ہاں اگر کوئی زیادہ ثواب کا مشتاق ہو اور شریعت کا سخت پابند ہوتو وہ بڑے مرغ کی قربانی دے کر اس فریضہ سے سبکدوش ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭