پاکستان کا الیکٹرونک میڈیا چونکہ طبقاتی ہے اس لیے اکثر اوقات جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے مفادات کا دفاع اور پرچار کرتا ہے پاکستان کے عوام کے قومی اور عوامی مسائل اس کی ترجیح ہی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم صحت پانی اور بڑھتی ہوئی آبادی بگڑتی ہوئی معیشت کے بارے میں کبھی ٹاک شوز میں سنجیدہ گفتگو نہیں کی جاتی اور نہ ہی ٹیکنوکریٹس کو ٹاک شوز میں بلایا جاتا ہے۔ چند خاندانوں کے سیاسی افراد الیکٹرونک میڈیا کے قومی ہیرو بنے ہوئے ہیں چاہے وہ ملزم اور مجرم ہی کیوں نہ ہوں جن کے چہرے بار بار دیکھ کر عوام تنگ آچکے ہیں۔ نجی سطح پر چند ادارے قومی مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے قابل ستائش کردار ادا کر رہے ہیں ان میں حکیم سعید شہید کا ادارہ ہمدرد شوریٰ سر فہرست ہے۔ جس کے اجلاس ہر ماہ باقاعدگی اور تسلسل کے ساتھ کراچی اسلام آباد اور لاہور میں ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہمدرد شوری لاہور کا ماہانہ اجلاس ہمدرد سینٹر میں ہوا جس کی صدارت قومی اسمبلی کی سابق رکن اور معروف دانشور محترمہ بشری رحمنٰ نے کی۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر رفیق احمد د ڈاکٹر یونس اپل طاہر یوسف کاشف ادیب جاودانی پروفیسر خالد محمود عطا صدیق ریحان اور محترمہ فاطمہ قمر نے تعلیم اور قومی یک جہتی کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔ اجلاس میں محترمہ سعدیہ راشد علی بخاری پروفیسر مشکور صدیقی پروفیسر نصیر چوہدری رانا امیر احمد ایڈوکیٹ نے شرکت کی۔
ہمدرد شوریٰ کے اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ نظام تعلیم کسی بھی ملک یا قوم کی فکری بنیاد ہوتا ہے۔ سمت کا تعین کرتا ہے علم و آگہی کو فروغ دیتا ہے- تخلیق اور تحقیق کے در کھولتا ہے قومی امنگوں کو حرز جاں بنا تا ہے۔ ملی وحدت اور قومی شناخت عطا کرتا ہے اور یوں گویا اپنے لوگوں کو ایک مربوط فکر کے سائے میں آنے والے زمانوں کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار کرتا ہے۔ مگر ایسا اس وقت ہوتا ہے جب نظام تعلیم ایک مضبوط منظم اور آفاقی نظریے سے جڑا ہوا ہو یہی نہیں بلکہ اس کے نفاذ کی کوشش کرنے والے بھی اس نظریے کے حامل اور اپنی جدوجہد میں اخلاص کا پیکر نظرآتے ہوں بدقسمتی سے ہم بحیثیت قوم ایک موثر نظام تعلیم دینے سے ہنوز محروم ہیں۔ جب ریاست میں درس نظامی میٹرک سسٹم کیمبرج سسٹم اور دوسری نوعیت کے کئی سسٹمز ہونگے تو ملک میں انتشار تو ہوگا۔ فکری وحدت اور قومی یکجہتی کہاں سے آئے گی۔ سوچ اور عمل میں ہم آہنگی کیسے پیدا ہوگی یہ سب کچھ ہوگا تو پھر ایک قوم یا ایک ملت کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہوگا۔ تعلیم جو کبھی تربیت سے ہم آہنگ ہوا کرتی تھی اب محض فارمولے پڑھانے اور اسباق رٹوانے کا نام بن کر رہ گئی ہے۔ آج کا طالب علم اپنی مہارتوں اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو قومی تقاضوں سے جوڑنے کی بجائے اسے مادی ضرورتوں اور ذاتی فائدوں سے جوڑ کر دیکھتا ہے ۔ نصاب میں اسلاف کے تذکرے اور نظریات کی باتیں تو ماضی کے فرسودہ قصے لگنے لگے ہیں۔ جدیدیت کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ہمارا رشتہ ہمارے مرکزومحور سے کمزور کردیا ہے۔ نصاب روحانیت سے عاری اور دینی تعلیم جدید سوچ سے دور نظر آتی ہے اس سے پہلے کہ یہ خلیج مزید بڑھ جائے اور یہ انتشار کسی بڑے سانحے کو جنم دے ہمیں اپنے نظام تعلیم پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ دنیا کا تسلیم شدہ اصول ہے کہ تعلیم کے بغیر کسی ریاست کی ترقی ممکن نہیں ہوتی۔ پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کسی حکمران نے تعلیم کو اپنی ترجیح نہیں بنایا۔ ایک سابق سول سرونٹ کے مطابق جنرل ایوب خان نے وفاقی سیکرٹریوں کا اجلاس طلب کیا تاکہ ان کی مشاورت سے پاکستان کی ترجیحات کا تعین کیا جاسکے ایک وفاقی سیکرٹری نے مشورہ دیا کہ تعلیم کو ترجیحات میں شامل کیا جائے تاکہ پاکستان ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہو سکے ۔ آمرجنرل ایوب خان نے کہا آپ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام پڑھ لکھ کر میرے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ ایک تحقیق کے مطابق قیام پاکستان سے پہلے امریکہ اور برطانیہ نے پاکستان کے مستقبل کے لیے جو منصوبہ بندی کی تھی اس کے مطابق پاک فوج کو مضبوط کرنا اور پاکستان کو معاشی طور پر کمزور رکھنا طے پایا تھا ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا کیا کہ پاکستان میں تعلیم کی شرح کو بڑھنے نہ دیا جائے اور تعلیمی نصاب مغرب نواز ہو۔ چنانچہ اس پالیسی کے مطابق پاکستان کے کسی حکمران نے تعلیم پر خصوصی توجہ نہ دی اور تعلیم پر 2 فیصد سے زیادہ دہ بجٹ خرچ نہیں کیا گیا ۔ پاکستان کے اکثر حکمران قومی مفادات کے برعکس امریکہ اور برطانیہ کے زیر اثر رہے۔
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل نمبر 25 اے ریاست کی جانب سے گارنٹی دیتا ہے کہ پانچ سال سے 16 سال تک کے ہر بچے کو مفت اور لازمی تعلیم دی جائے گی۔ افسوس کسی حکمران نے آئین کے اس آرٹیکل پر عمل درآمد نہیں کیا حکومتوں کا آئینی فریضہ ہے کہ وہ والدین کو بچوں کی تعلیم کے لئے فیسیں ادا کریں۔ اگر پرائیویٹ ادارے تعلیم پر توجہ نہ دیتے تو پاکستان میں تعلیم کی شرح انتہائی شرمناک ہوتی۔ پاکستان کے 22 کروڑ عوام کا قومی مفاد اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے تعلیم کی شرح میں اضافہ کیا جائے مگر چونکہ ریاست کا نظام حکمرانی جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ ہے جس کے تقاضے مختلف ہیں اور عوام کی تمناؤں کے منافی ہیں جب تک یہ تضاد ختم نہیں کیا جاتا پاکستان کے قومی اور عوامی مسائل حل نہیں کیے جا سکیں گے۔ ہمیں ہر صورت تعلیم دشمن ذہنیت کا قلع قمع کرنا ہوگا - جب پاکستان کے تعلیمی نصاب کو کو یکساں بنایا جائے گا اور اس نصاب کو قرآن کے اخلاقی اصولوں سے جوڑا جائے گا تو قومی یکجہتی پیدا ہوسکے گی۔افسوس ایک منصوبہ بندی کے تحت اٹھارویں ترمیم میں تعلیمی نصاب کو صوبوں کے حوالے کردیا گیا یہ فیصلہ انگریزوں کے بنیادی اصول تقسیم کرو اور حکومت کرو کے عین مطابق تھا۔ پاکستان میں قومی زبان اردو کو نظرانداز کرکے انگلش میڈیم میں طبقاتی تعلیم دی جارہی ہے جس کا مقصد آقا یعنی حکمران اور غلام پیدا کرنا ہے تاکہ کہ جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کا طبقہ پاکستان پر مستقل حکمرانی کرتا رہے ۔ پاکستان کے جاگیردار سرمایہ دار اور قبائلی سردار تعلیم کے فروغ کے خلاف ہیں تاکہ ان کا تسلط اور اجارہ داری قائم رہے پاکستان کے علماء بھی سرکاری سکولوں کی مخالفت کرتے ہیں تاکہ ان کے دینی مدارس چلتے رہے ہیں جو ان کو سیاسی طاقت فراہم کرتے ہیں۔
پاکستان کے عوام دوست تجزیہ نگار متفق ہیں کہ جب تک ریاستی نظام کو تبدیل نہیں کیا جاتا پاکستان کے قومی اور عوامی مسائل حل نہیں کیے جا سکیں گے۔ تعلیم کی شرح میں بھی اضافہ نہیں ہوگا۔ پاکستان اسی طرح پسماندہ رہے گا اور قومی ترقی کا خواب بھی پورانہیںہو سکے گا۔ظالمانہ اور غیر منصفانہ ریاستی نظام کو تبدیل کرنے کا واحد آپشن یہ ہے کہ پاکستان کے محنت کش غریب عوام متحد اور منظم ہوکر عوامی طاقت سے عوامی انقلاب برپا کریں۔ جب تک سرمایہ دار اور جاگیر دار ریاست پر قابض ہیں پاکستان کی ترقی اور خوشحالی ایک خواب ہی رہے گی کیونکہ پاکستان کا موجودہ ریاستی نظام جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کی ترقی و خوشحالی کے لیے تشکیل دیا گیا تھا جس میں عوام کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38