چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ میری زندگی کے دو ہی مقصد ہیں میں یہاں رہوں یا ریٹائرڈ ہو جاو ں ان پر کام جاری رکھوں گا پہلا مقصد ڈیمز کی تعمیر اور دوسرا پاکستان کا قرض اتارنا ہے، ہم نے آئندہ آنے والی نسلوں کو مقروض چھوڑ کرنہیں جانا،چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے دورکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے کچی آبادیوں سے متعلق کیس کے دوران ریمارکس میں کہاکہ کچی آبادیوں میں رہے والے بھی انسان ہیں ان کے مسائل حل کئے جائیں، عدالت نے مسائل سے آگاہ کرنے کیلئے بابر اعوان کو عدالتی معاون مقرر کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کچی آبادیوں والے بھی انسان ہیں۔کچی آبادیوں والے مسئلے،پرنوٹس لیکر سماعت کے لیے مقرر کیا۔ کچی آبادیوں میں رہنے والوں کو بدترین مسائل کا سامنا ہے۔بابر اعوان نے کہا میں نے کل رات اسلام آبادمیں کچھ کچی آبادیوں کاوزٹ کیا۔کل رات ایک ویڈیو دیکھی جوتے پالش کرنے والے دس سے بارہ سالہ معصوم بچے ڈیم فنڈ میں سو سو روپیہ جمع کرانے لاہور بینک میں پہنچے۔چیف جسٹس نے کہا باجوڑ سے تعلق رکھنے والے بچوں کی ویڈیو دیکھ کر میری آنکھیں بھرآئیں۔ بابر اعوان بولے اس ملک کو اللہ تعالی نے بہت سے وسائل سے نوازا ہے اچھی نیت کی ضرورت ہے۔پہلی بار اس قوم کا جذبہ 1965 کیا جنگ میں اور دوسرا شوکت خانم چندہ مہم میں دیکھا۔ تیسرا اب ڈیم فنڈز جمع کرنے ہے جب چھوٹے چھوٹے بچے چندہ دینے لائنوں میں لگے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میری زندگی کے دو ہی مقصد ہیں میں یہاں رہوں یا ریٹائرڈ ہو جاوں اس پر کام جاری رکھوں گا۔پہلا مقصد ڈیمز کی تعمیر اور دوسرا قرض اتارنا ہے۔ہم نے آئندہ آنے والی نسلوں کو مقروض چھوڑ کر نہیں جانا۔چیف جسٹس نے کہا کہ زندہ قوموں کا یہ شیوہ نہیں ہوتا۔ آج ہرپیدا ہونیوالابچہ ایک لاکھ 17 ہزار کا مقروض ہے۔اعتزاز احسن کے مطابق ہم نے اپنی پانچ نسلوں کو مقروض کرلیاہے۔ ڈیمز اور پانی والے مسلے کے بعد قرضوں والا کام شروع کریں گے۔ممبر پلانگ سی ڈی اے کو کنفیوز کرتے ہیں۔ آپ سے کام نہیں ہوتا تو عہدہ چھوڑدیں۔ممبر پلاننگ سی ڈی اے نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد میں آٹھ کچی آبادیاں ریگولر ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کچی آبادیوں کے مکینوں کو مناسب جگہ ملنی چاہیے۔کم ازکم بنیادی سہولیات تو ملنی چاہئیں۔ لوگوں کو پانی اور رہائش نہیں مل رہی۔عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ بابر اعوان کچی آبادیوں کے مسائل سے آگاہ کریں۔عدالت کی جانب سے بابر اعوان عدالتی معاون مقرر کر دیا گیا کرتے ہوئے ایم سی ائی اور آئی سی ٹی اور سی ڈی اے کو نوٹس جاری کر دیا گیا۔کیس کی مزید سماعت اٹھ اگست تک ملتوی کر دی گئی۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024