تیرہ جولائی… یوم شہداء کشمیر(1)
تو محکوم کشمیریوں کی تحریک دیگر سب سے طویل ، کٹھن ، صبر آزما اور روح فرسا ہے گزشتہ 184سالوں سے جاری تحریک آزادی کشمیر خونچکاں واقعات ، دلخراش روح فرسا سانحات اور خونی خوادث سے لبریز ہے۔کشمیری قوم کی تاریخ تو قربانیوں سے بھری پڑی ہے ۔ خون آشام واقعات ، دلخراش سانحات و خونچکاں حوادث کے کئی واقعات موجود ہیں لیکن ان سب میں سے 13جولائی کے ’’شہداء کشمیر‘‘کی عظیم قربانی تحریک آزاد ی کشمیر کا باب اول ہے کشمیریوں نے 1931ء میں عوام کے اندر شعور آزادی کی بیداری کیلئے چھوٹے اجلاسوں کا آغاز کیا جو بتدریج جلسوں کی شکل اختیار کرتے چلے گئے ۔ مہاراجہ ہری سنگھ دورہ برطانیہ سے واپس آئے تو اس صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے مشاورت کی اور طے پایا کہ وہ ریاستی مسلم زعماء سے ملاقات کر کے ان کے مطالبات خود دیکھیں گئے ۔ چنانچہ اس مقصد کیلئے انہوں نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی اس سلسلہ میں نمائندہ وفد تشکیل دیا گیا جس میں جموں سے مستری یعقوب علی، سردار گوہر الرحمان ، چودھری غلام عباس اور شیخ عبدالمجید ایڈووکیٹ کو نامزد کیا گیا جبکہ وادی کشمیر سے نمائندوں کی نامزدگی کے لئے فیصلہ کیا گیا کہ عوامی اجتماع کا انعقاد کرکے لوگوں سے رائے لینے کا فیصلہ ہوا تاکہ چناؤ کو متفقہ بنایا جائے گااور خانقاہ معلیٰ سرینگر میں 30جون 1931ء کو جلسہ کا اعلان کیا گیااس دوران جموں میں ہی ایک ہندو سپاہی کی طرف سے حمائل شریف کی بے حرمتی کے ایسے دلآزار حادثات وقوع پذیر ہوئے جس سے کشمیری مسلمانوں کے جذبات مشتعل ہوگئے اور 29، اپریل 1931ء کو خطیب جامع مسجد مفتی محمد اسحاق خطبہ عیدالاضحی میں حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون کا واقعہ بیان فرما رہے تھے اور ڈیوٹی پر تعینات ڈوگرہ پولیس آفیسربڑی توجہ و انہماک سے سن رہا تھا کہ مفتی صاحب فرعون کی جو خرابیاں بیان کر رہے ہیں وہ سب ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ کی ذات میں بدرجہ اتم موجود ہیں اور بعض دیگر حوالوں کے مطابق امام صاحب نے خطبہ میں قربانی کے جانوروں کی تفصیل میں گائے کا نام لیا تو ڈوگرہ پولیس نے خطبہ بند کرنے کا حکم دیا جس سے کشمیری مسلمان مشتعل ہو گئے اس موقع پر مسجد میں ایک مسلم رہنماء میر حسین بخش نے للکار کر کہا کہ مفتی صاحب خطبہ جاری رکھیں اور مسلمانوں کا جوش و جذبہ دیکھ کر انسپکٹر ٹھاکرکھیم چند کرتار سنگھ رفوچکر ہو گیا۔یوں 30جون کا مجوزہ جلسہ اور زیادہ اہمیت اختیار کر گیا اس تاریخی جلسہ میں لاکھوں کشمیریوں نے شرکت کی اور بقول شیخ صاحب یہ جلسہ کشمیری قوم کے اتحادو یکجہتی کی علامت تھا کہ گروپوں میں تقسیم میر واعظ خاندان کے زعماء اس جلسہ میں سٹیج پر ایک دوسرے سے بغلگیر ہوئے اور مسلم زعماء احمدی فرقہ کے علمبردار مولوی عبداﷲ وکیل سے بھی ملے۔ اس تاریخی جلسہ عام سے میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ، مولوی احمد اﷲ ہمدانی، شیخ عبداﷲ، خواجہ غلام الدین عشائی ، خواجہ سعید الدین شال، آغا سید حسین شاہ جلالی اور دیگر قائدین نے جذباتی خطابت کے جوہر دکھاتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ حصول آزادی کے لئے باہم اتحاد سے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ مسلمان لیڈروں نے اپنی تقاریر میں کہا کہ وہ تمامتر ڈوگرہ مظالم تو شاید برداشت کر لیں لیکن توہین قرآن ہر گز برداشت نہیں کریں گے۔ ان ولولہ انگیز خطابات کے دوران مسلمانوں کے جذبات قابل دیدنی تھے، اس جلسے میں نمائندہ وفد کے لئے کشمیر سے جن معتبر نمائندوں کا انتخاب کیا گیا ان میں حضرت میر واعظ مولانا یوسف شاہ، میر واعظ احمد اﷲ ہمدانی، آغا سید حسین جلالی، خواجہ غلام احمد عشائی، منشی شہاب الدین، خواجہ سعید الدین شال اور شیخ عبداﷲ شامل تھے۔ جلسہ ختم ہوا تو منتظمین اپنے قائدین کو چائے نوشی کے لیے قریب ہی ہمدانیہ سکول لے گئے کہ اس دوران عبدالقدیر نامی ایک نوجوان سٹیج پر آیا اور تقریر شروع کر دی اس کی تقریر مہاراجہ کی سرکاری خفیہ ایجنسیوں نے ان الفاظ میں رپورٹ کی۔’’مسلمانو! اب وقت آگیا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔ یادداشتوں و گذارشوں سے ظلم و ستم میں ہر گز کوئی فرق نہیں آئے گا اور نہ یہ توہین قرآن کا مسئلہ حل ہوگا تم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاؤ اور ظلم کے خلاف لڑو عبدالقدیر نے راج محل کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجادو‘‘۔عبدالقدیر ایک غیر معروف شخص تھا جو پشاور میں تعینات یارک شائر رجمنٹ کے انگریز میجر کے ساتھ خانساماں کی حیثیت کشمیر آیا ہوا تھا۔ میجر تعطیلات گزارنے نسیم باغ کے ایک ہاؤس بوٹ میں رہائش پذیر تھا بہر حال عبدالقدیر کی جذباتی تقریر نے بارود کے ڈھیر میں چنگاری سلگا دی اور سرینگر کی فضاء ’’اسلام زندہ باد‘‘ کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔ اس کے بعد عبدالقدیر کو گرفتار کر لیا گیا اور اس کے خلاف رئیبر پینل کوڈ دفعہ 124(الف) اور دفعہ 153کے تحت بغاوت اور غداری کا مقدمہ درج کیا گیا۔ اس مقدمہ کی سماعت سیشن جج سرینگر پنڈت کشن لعل کچلوکی عدالت میں مسلسل 8,7,6اور 9جولائی 1931ء کو ہوئی اور پیشی کی ان تاریخوں پر پولیس عبدالقدیر کو پیدل لے جاتی تو اس کے گرد پیشی پر ہزاروں لوگ جمع ہو جاتے، لوگوں کے تیور دیکھ کر حکمرانوں نے حفظ ماتقدم کے طور پر آئندہ تاریخ سماعت 13جولائی کو جیل کے اندر ہی عدالتی کارروائی کا فیصلہ کیا اور اس پروگرام کو انتہائی خفیہ رکھا گیا۔ 12جولائی 1931ء کو گاؤ کدل میں ایک بڑا عوامی جلسہ منعقد ہوا جس میں شیخ عبداﷲ، مولوی عبدالرحیم اور خواجہ غلام نبی گلکار کے علاوہ دیگر رہنماؤں نے اپنی تقریروں میں عبدالقدیر پر بنائے گئے نام نہاد مقدمہ کی مذمت کی اور مقدمہ کی سماعت جیل کے اندر کوٹھری میں کرنے کا مطالبہ کیا چونکہ اسی جلسہ میں عبدالقدیر زندہ باد کے نعرے لگائے جارہے تھے ۔
(جاری ہے)