ٹیکس ایمنسٹی سکیم کو گزشتہ سکیم کے مقابلہ میں 10 گنا زیادہ رسپانس ملا : ایف بی آر
فیصل آباد (نمائندہ خصوصی) موجودہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کو گزشتہ سکیم کے مقابلہ میں دس گنا زیادہ رسپانس ملا ہے جبکہ ابھی تک اس سے فائدہ اٹھانے والوں اور اس سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں کو حتمی شکل نہیں دی جا سکی۔ یہ بات فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ڈائریکٹر جنرل ود ہولڈنگ ٹیکس محمود اسلم نے آج فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری میںہونے والے تیسرے آگاہی سیشن سے خطاب کررہے تھے ۔ اس موقع پر چیف کمشنر ان لینڈ ریونیو فیصل آباد چوہدری محمد طارق بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہاکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کی وجہ سے سرمائے کی نقل و حرکت کی نگرانی مزید سخت کی جار ہی ہے جبکہ ایک سو تنتالیس ملکوں کے درمیان ہونے والے حالیہ معاہدے کے تحت وہ غیر ملکیوں کے بینک اکائونٹس بارے تمام معلومات آٹو میٹک ایکسچینج آف انفارمیشن سسٹم کے تحت ایک دوسرے کو دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان دو وجوہات کی بنا پر آئندہ اثاثوں کو بیرون ملک چھپانا ممکن نہیں رہے گا لہٰذا ان حالات میں کم ترین ریٹس پر اکائونٹس اور اثاثوں کو اپنی بک آف اکائونٹس میں لانے کا یہ بہترین موقع ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ لوگوں کا خیال تھا کہ غیر ملکی اثاثوں پر 5 فیصد ٹیکس زیادہ ہے لیکن موجودہ نگران حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ چونکہ یہ سکیم پارلیمنٹ نے منظور کی ہے لہٰذا تاریخ میںتوسیع کے سوا اس کے ریٹ میں تبدیلی ان کا مینڈیٹ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سکیم سے متعلق لوگوں کے خدشات دور کرنے کیلئے ایف بی آر کی ویب سائٹ پر تمام معلومات اپ لوڈ کر دی گئی ہیں۔ اس طرح ایف بی آر کی ہیلپ لائن بھی ہفتہ اور اتوار کے دن بھی کھلی رہتی ہے جبکہ ریجنل ٹیکس دفاتر میں بھی فوکل پرسنز تعینات کر دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 30 جون سے قبل فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری سمیت بڑی تعداد میں لوگوں کی طرف سے اس سکیم کی مدت میں توسیع کے مطالبات کئے جار ہے تھے مگر آٹھ ۔ دس جولائی تک اسی تناسب سے رسپانس نہیں ملا حالانکہ 30 جون تک لوگوں کا رسپانس زبردست تھا۔محمود اسلم للئہ نے کہا کہ ملکی حالات میں مستقبل قریب میں مزید ایسی کسی نئی سکیم کے آنے کا کوئی امکان نہیں اس لئے لوگوں کو اس سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کا کام صرف ریونیو جمع کرنا ہے جبکہ اس کو خرچ کرنے کا فیصلہ کسی اور کو کرنا ہوتا ہے۔ تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے حاصل ہونے والے ریونیو کو ایف بی آر کے سالانہ اہداف میں شامل نہیں کیا گیا اور اس کو الگ اکائونٹ رکھا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان اس وقت بحران میں مبتلا ہے ہمارے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر صرف ایک ماہ کی درآمدات کیلئے رہ گئے ہیں۔ ٹیکس نیٹ کا دائرہ بڑھانے کے سلسلہ میں بجلی کا کمرشل میٹر لگوانے کو نیشنل ٹیکس نمبر سے مشروط اور اگلے سال ریٹرن داخل نہ کرنے پر اس کو منقطع کرنے کی تجویز پر ڈائریکٹر جنرل ودہولڈنگ ٹیکس نے کہا کہ یہ اچھی تجویز ہے تاہم اس کو آئندہ بجٹ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ پرانی خریدی گئی پراپرٹی بارے انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں واضح فارمولا دے دیا گیا ہے جس کے تحت زمین کی قیمت ڈی سی ریٹ کے مطابق ہو گی جبکہ اس پر سٹرکچر کی لاگت کا تعین چار سو روپے فی مربع فٹ کے حساب سے کیا جائے گا۔ ودہولڈنگ ٹیکس کے خاتمہ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں تاہم اس میں معمولی ردو بدل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 22 کروڑ کی آبادی میں سے صرف13لاکھ لوگ ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں جن میں 6 لاکھ افراد تنخواہ دارہیں باقی سات لاکھ کارپوریٹ نان کارپوریٹ اور اے او پی ہیں ۔بینک ٹرانزکشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنا ہے لیکن بوجوہ اس میں کامیابی نہیں ہو سکتی۔اس سے قبل خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے صدر شبیر حسین چاولہ نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے بنیادی محرکات کا ذکر کیا اور کہا کہ معیشت کو تاحال پوری طرح دستاویزی شکل نہیں دی جا سکی جبکہ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہور ہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سکیم سے نان ریذیڈنٹ پاکستانیوں سے 3 سے 4 ارب ڈالر کا ٹیکس ریونیو متوقع ہے مگر فی الحال صرف 300 ملین ڈالر کا ٹیکس ہی موصول ہوا ہے۔ اس سے قبل سوال و جواب کی نشست میں چوہدری طلعت محمود، چوہدری اصغر، رانا سکند ر اعظم خاں اور محمود عالم جٹ سمیت دیگر شرکاء نے بھی حصہ لیا۔ آخر میں صدر شبیر حسین چاولہ نے ڈائریکٹر جنرل ود ہولڈنگ ٹیکس محمود اسلم للہ کو فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کی خصوصی شیلڈ پیش کی۔