سی ایس ایس ٹاپر کے اوپر فوجی افسر بٹھانا زیادتی ہے‘ جسٹس شوکت صد یقی
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے 1991ء کا آفس میمورنڈم طلب کرتے ہوئے ایف پی ایس سی میں آرمڈ فورسز کے کوٹے سے متعلق کیس کی سماعت 23 جولائی تک ملتوی کر دی ہے۔ فاضل جسٹس نے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل یا کسی اور ذمہ دار افسر کو عدالت کی معاونت کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ گزشتہ روز سماعت کے موقع پر وزارت دفاع ، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور ایف پی ایس سی کے نمائندے عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ دوران سماعت جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے استفسار کیا کہ کیا آفس میمورنڈم کے علاوہ آرمڈ فورسز کے کوٹہ کے لئے کوئی آئینی منظوری ہے۔ اس پر ایف پی ایس سی کے نمائندہ نے بتایا کہ آفس میمورنڈم کے علاوہ کوئی آئینی منظوری نہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دئیے کہ یہ آئین میں خلل ڈالنے کے لئے دروازہ کھولا گیا ہے ، کتنی زیادتی کی بات ہے کہ سی ایس ایس ٹاپر کے اوپر آرمڈ فورسز کا آفیسر بٹھا دیا جاتا ہے۔ کیا سی ایس ایس کے ٹاپر کو چھ ماہ کے لئے کپتان بنا سکتے ہیں؟ کیا سی ایس ایس پاس کرنے والوں کا حق نہیں ہے؟ آرمڈ فورسز صرف ٹاپ کے تین گروپس ڈسٹرکٹ مینجمنٹ ، فارن اور پولیس سروس ہی کیوں جوائن کرتے ہیں؟ فاضل جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ یہ ایک سوچ کا نتیجہ ہے جو سمجھتے ہیں کہ ہم ہر کام کر سکتے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے استفسار کیا کہ ایک کپتان تیار کرنے میں کتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ اس پر وزارت دفاع کے نمائندے نے جواب دیا کہ مختلف کیٹگریز ہیں ، خرچ بھی الگ الگ ہوتا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دئیے کہ کپتان بن کے فارن سروس میں ہی آنا ہے تو سارے کام کاکول اکیڈمی منتقل کردیں۔ بعد ازاں فاضل عدالت نے مذکورہ احکامات جاری کرتے ہوئے سماعت 23 جولائی تک ملتوی کر دی۔