ٹورنٹو کے سکول کا خواب!!!!!
ہم کوئنز ایلزبتھ روڈ پر سفر کرتے ہوئے ٹورنٹو سے نیاگرا فالز کی طرف جا رہے تھے۔ ایک سو بیس کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے ہماری قیام گاہ سے لگ بھگ ستر اسی منٹ کے فاصلے پر دنیا کی سب سے مشہور نیاگرا فالز کے بارے سنا اور پڑھا تو تھا اب قدرت کے ان دلفریب نظاروں سے بھی لطف اندوز ہونیکا موقع ملنے والا تھا۔ کوئنز ایلزبتھ روڈ کے دونوں طرف کے حسین مناظر دیکھنے لائق تھے۔ ہریالی تھی،سبزہ تھا، نیلا آسمان، زرعی زمین کی دلکشی، جھیل اونٹاریو کے دلفریب مناظر یہ سب کسی نعمت سے کم نہ تھے۔ ان حسین نظاروں کے ساتھ ساتھ منظم ٹریفک بھی بھلی معلوم ہو رہی تھی۔ یہاں ہائی وے پر حادثات سے بچنے کے لیے سائیڈ مرر کے اندر بھی ایک چھوٹا مرر لگایا جاتا ہے تاکہ پیچھے اور سائیڈ سے نکلنے والی گاڑیوں کو با آسانی دیکھا جا سکے۔ کوئنز ایلزبتھ روڈ پر سفر کرتے ہوئے بادلوں اور سورج کی آنکھ مچولی بھی جاری تھی۔ ہیوی ٹریفک بھی چل رہی تھی۔ یہ بڑے ٹرک چلانے والے ایک خاص قانون کے پابند ہوتے ہیں مخصوص وقت کے بعد مقرر کردہ وقت میں نیند لینے کے پابند ہوتے ہیں تاکہ لمبے سفر کے دوران سفری تھکان سے محفوظ رہتے ہوئے محفوظ انداز میں ڈرائیونگ کر سکیں۔ ہمارا سفر جاری تھا شیخ اعجاز نوائے وقت میں گذرے اپنے یادگار وقت کو دہراتے ہوئے امام صحافت مجید نظامی کی زیر سرپرستی گذرنے والے یادگار اور علم سے بھرپور وقت، مرحوم سید عباس اطہر کے ساتھ کام کرنیکے تجربات اور اپنے فاضل دوست رپورٹر سیف اللہ سپرا، نیوز روم کے ساتھی ایاز خان، تنویر خان کے ساتھ گذرے ہوئے وقت کی یادوں کو تازہ کر رہے تھے کہ اچانک پوچھنے لگے حافظ صاحب آپ نے صبح مقامی سکول کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیوں کیا۔ ہم نے جواب دیا شیخ صاحب گذشتہ برس میں برطانیہ گیا تھا وہاں لندن کے علاقے الفورڈ کے ایک سکول کا بھی دورہ کیا تھا تاکہ سکول کا رقبہ دیکھنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو فراہم کی جانیوالی کھیل کی سہولیات کا بھی جائزہ لے سکوں۔ نظام تعلیم کے بارے آپ بتا چکے ہیں کہ اس پر وہاں کی حکومت سختی سے عملدرآمد کرتی ہے۔ جہاں تک کھیل کی سہولیات کا تعلق ہے تو مجھے الفورڈ اور ٹورنٹو کے سکولوں میں یہ چیزیں مشترک نظر آتی ہیں۔ کھیل کے وسیع و عریض میدان ہیں۔ ایک ہی جگہ پر کرکٹ، فٹبال، ہاکی، اتھلیٹکس اور دیگر کھیلوں کی سہولیات موجود ہیں جبکہ چھوٹے بچوں کے کھیلنے کے لیے بنائی گئی جگہ پر ایک خاص نرم چیز بچھائی گئی ہے کہ گرنے کی صورت میں بچوں کو چوٹ سے بچایا جا سکے اور کھیلوں کی ایسی سہولیات ہر سکول میں موجود ہیں جہاں بلا تفریق ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ یوں کم عمری سے ہی بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل کے میدان اور صحت مند سرگرمیوں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ تعلیم حاصل کرتے ہوئے مسلسل ایسی سرگرمیوں کا حصہ بنتے رہنے سے کھیل، ورزش اور ایکسرسائز ایسے ہی انکی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے جیسا کھانا پینا۔ سو میرا سکول دیکھنے کا بنیادی مقصد یہی تھا۔ کینیڈا میں اگر آپکا گھر سکول سے دو کلو میٹر کی حدود میں ہے تو پھر بچوں کی پک اینڈ ڈراپ بھی انکے ذمے ہیں۔ جب تک یونیورسٹی تعلیم شروع نہیں ہو جاتی اس وقت تک ہر طالبعلم کے تعلیمی اخراجات ریاست برداشت کرتی ہے۔ یونیورسٹی میں داخل ہونیکے بعد تعلیمی اخراجات والدین کو برداشت کرنا پڑتے ہیں اس سطح پر بھی سکالر شپ کے ذریعے حکومت طالبعلموں کو سپورٹ کرتی ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ جس ملک میں گریڈ بارہ تک جب صرف تعلیم نہیں بلکہ معیاری تعلیم مفت ہو گی تو وہاں کوئی کیوں سکول کالج جانے سے محروم کیسے رہ سکے گا۔ اب حکومت کسی بھی جماعت کی ہو حکمران کوئی بھی ہو اس معاملے میں کوئی"استادی یا کاریگری" نہیں لگائی جا سکتی۔ یہ حقیقی معنوں میں قوم کے معماروں کی خدمت ہے۔ تعیلمیافتہ اور صحت مند معاشرے کی تشکیل یوں ہی نہیں ہو جاتی اس کے لیے ایسے عملی اقدامات کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ جتنے رقبہ پر ٹورنٹو میں ایک سکول کے صرف کھیل کے میدان ہیں اتنے رقبے میں ہمارے ہاں درجن بھر سکولوں کی عمارتیں قائم ہیں۔ ہمارے ہاں سال میں ایک دن سپورٹس گالا یا سپورٹس ڈے کروا کر ذمہ داری پوری کر لی جاتی ہے۔ نہ حکمرانوں کے پاس اس طرف توجہ دینے کے لیے وقت ہے نہ ہی متعلقہ محکموں کی اسمیں کوئی دلچسپی ہے۔ نصاب کی بات تو ایک طرف رکھ دیں اس کے ساتھ تو ہر دور میں ہر حکمران اپنی مرضی سے چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا ہے۔ کیا آج سکول، کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنیوالا نوجوان ہمارا مستقبل نہیں ہے۔ کیا اسے نیچے سے اوپر تک آتے تعلیمی علم کے دوران وہ تمام سہولیات فراہم کرنا ہمارے حکمرانوں کی ذمہ داری نہیں ہے۔ کیا بااثر،اشرافیہ اور حکمران طبقہ یہ نہیں جانتا کہ بیرونی دنیا میں تعلیمی نظام کیوں اور کیسے مضبوط ہے اور اسے آسان تر بنانے کے لیے حکومتوں کا کردار کیا ہوتا ہے، کیا ہمارے حکمران اس شعبے میں اپنی ذمہ داری نبھانے میں کامیاب ہوئے ہیں؟؟؟
بدقسمتی سے تعلیم اور کھیل حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں کیونکہ یہ دونوں شعبے ترقی کریں گے تو نوجوان ذہنی و فکری طور پر آزاد ہو گا۔ وہ سوالات کرے گا، معاشرے میں پھیلی بدامنی اور اختیارات اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم پر جوابات طلب کرے گا اور حکمراں طبقہ یہ نہیں چاہتا کہ نوجوان آزاد ہو خود مختار ہو اسے سوال پوچھنے، تحقیق کرنے اور جوابات ڈھونڈنے کی آزادی ہو یہی وجہ ہے کہ اسے الجھا دیا جاتا ہے کبھی روٹی کپڑا اور مکان کی بحث میں کبھی زبردستی نفاذ اسلام کی بحث میں کبھی جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ کی بحث میں کبھی کرپشن سے پاک پاکستان کی بحث میں تو کبھی نئے اور پرانے پاکستان کی بحث میں اور آج بھی ایک مرتبہ پھر نوجوان کے کندھے استعمال کرنیکا زمانہ عروج پر ہے کل کی طرح آج بھی نوجوان استعمال ہو گا سہانے خوابوں کی تعبیر میں روشن مستقبل کی امید میں پرامن،آزاد اور فلاحی ریاست کی آس میں لیکن شاید ابھی ان خوابوں کی تعبیر کا وقت نہیں آیا۔ ان امیدوں کے بر ہونیکا لمحہ نہیں آیا ان نعروں اور وعدوں کو وفا کرنے کا زمانہ ابھی دور ہے بہت دور۔۔۔۔
یہی باتیں کرتے کرتے ہم نیاگرا فالز کے پارکنگ میں پہنچے اور قدرت کے ان حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے لگے وہ تمام خواب بلندی سے گرتے اس پانی میں بہہ گئے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وطن عزیز کا نوجوان کب تک وعدوں، نعروں اور امیدوں کے سہارے جیتا رہیگا۔