کیا آئین عوام کے دکھ دور کر رہا ہے؟
ہمیں اکثر ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں کہ دوائیوں میں اثر ہی نہیں رہا یا ڈاکٹر نالائق ہو گئے ہیں۔اسی لیے نزلہ ، زکام، بخار جیسی چھوٹی چھوٹی بیماریاں بھی جلد ٹھیک نہیں ہوتیں۔ اپنی اس گفتگو کا نتیجہ ہم عموماً یہ نکالتے ہیں کہ چونکہ دوائیوں میں ملاوٹ ہوتی ہے، اس لیے وہ بے اثر ہو گئی ہیں اور ڈاکٹروں کے مسیحا کی بجائے سوداگر بن جانے کے باعث ان کے ہاتھوں سے برکت اٹھ گئی ہے۔ لوگوں کے اس نظریے کو چھیڑے بغیر ایک اور طرح سے بھی سوچا جا سکتا ہے کہ امیون ہونا بھی ا یک فطری عمل ہے۔ ہو سکتا ہے ہم روایتی دوائیوں کو کئی نسلوں سے استعمال کرنے کی وجہ سے اپنے اندر قوتِ مدافعت ڈویلپ کر گئے ہوں اور اب یہ دوائیاں ہماری عام بیماریوں کے لیے بھی زیادہ مو¿ثر نہ رہی ہوں۔ جی نہیں !یہ دوائیوں پر لکھا گیا کالم نہیں ہے بلکہ میڈیسن میںامیون کے مفہوم کو ہم اپنے موجودہ سیاسی ڈھانچے پر فٹ کر کے دیکھتے ہیں۔پہلے یہ ہوتا تھا کہ سیاست یا سیاسی لیڈر میں کسی قسم کی کوئی بھی غلط کاری سامنے آتی تو ایک شور مچ جاتا۔ اس شور کے اثرات مرتب ہوتے اور آہستہ آہستہ وہ سیاسی لیڈر یا سیاسی پارٹی دھول ہو جاتے۔ مثلاً پاکستان کی سیاست کے اندھیروں میں ٹھوکریں کھانے والے ابتدائی تقریباً دس برسوں کو چھوڑ کر اُس وقت سے دیکھیں جب لوگوں کوسیاست کے اندھیر کمروں میں کچھ کچھ دکھائی دینا شروع ہوا۔ تب سے ہی ہمیں سیاسی غلطیوں کے خمیازے بھگتنے کی کہانیاں ملتی ہیں۔ مثلاً ایوب خان کے دور میں ذرا سی چینی مہنگی ہوئی یا تاشقند معاہدے کے خلاف آواز اٹھی یا احتجاجی جلوس پر پولیس کی فائرنگ سے چند کالج کے طالب علم مارے گئے وغیرہ وغیرہ کے نتیجے میں رفتہ رفتہ ایوب خان عوامی نفرتوں کے سیلاب میں بہہ گئے۔ ذوالفقار علی بھو اپنے اقتدار کے چند برسوں کے اندر اندر ہی بہت زیادہ خود اعتماد ہو چکے تھے۔ انھوں نے سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگانے کا جو سلسلہ شروع کیا، اسلامی ذہن کے کروڑوں پاکستانیوں کے سامنے تھوڑی سی پی لینے کا اعتراف کیا، 1977ءکے عام انتخابات میں لینڈ سلائیڈنگ وکٹری کی کوشش کی یا ایسی ہی بہت سی سیاسی ہیرا پھیریوں کا کفارہ انھوں نے پھانسی گھاٹ پہنچ کر ادا کیا۔ جنرل ضیاءالحق نے بظاہر کسی اہم وجہ کے بغیر ایک ٹھنڈے مزاج اور شریف طبیعت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو کو اچانک برطرف کیا تو لوگوں کو اس اقدام سے جھرجھری آگئی اور دیکھا گیا کہ جونیجو کی برطرفی کے بعد سے اپنی موت تک کے آخری چند ماہ ضیا الحق نے سیاسی بد ہضمی کے ساتھ ہی گزارے۔ پھر 1988ءسے 1999ءتک کے گیارہ برسوں پر مبنی ”لکن میٹی“ کا ایک ایسا سیاسی کھیل شروع ہوا جس کے میچ ڈریسنگ روم سے کنٹرول کیے جا رہے تھے۔ ن تمام میچوں میں بھی دو تین سال کے درمیان ہی سیاسی حکومتوں کی تیز تیز سیاست کرنے کی سزا دی جاتی رہی۔ 1999ءکے بعد جب ہوڑمت والے پرویز مشرف دندنانے لگے تو امریکیوں کے سامنے لیٹ جانے، سیاستدانوں کو لیفٹ رائٹ کروانے ، ججوں کو قید کرنے اور ایمر جنسی لگانے جیسے دھونس ڈنڈے کے فیصلوں کے خلاف لوگوں نے قوتِ مزاحمت حاصل کر لی۔2008میں جیتنے کے بعد پیپلز پارٹی کے نام کو استعمال کر کے نئی قیادت نے پرانی حرکتیں ہی کیں تو لوگوں نے فوراجان لےاجس کا نتیجہ ےہ نکلا کہ 2018کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو امیدوار ہی نہیں ملے لےکن پیپلز پارٹی اب بھی اپنے آپ کو ایک بڑی جمہوری جماعت کہتی ہے شاید اس لےے کہ وہ عوام کے معیار پر نہ سہی آئینی فارمولے پر توپورے اترتے ہیں۔مزید ےہ کہ موجود ہ سیاسی دور میں پہلے والا ہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ مہنگائی کی رفتار خلائی جہاز سے تیزہے، لوگوں کے جان و مال اُتنے ہی غیر محفوظ ہو چکے ہیں جتنے قدیم دنیا میں بسنے والے اکیلے اکیلے جنگلیوں کے تھے، پاکستان میں دہشتگردی کی ایجاد بم دھماکوں سے ہوئی اُس میں جدت خودکش حملوں سے آئی۔ان سب کے ساتھ ساتھ حکومتیں ہیں کہ چلتی ہی جا رہی ہیں، اپوزیشنین ہیں کہ بولتی ہی جا رہی ہیں،الیکشن ہیں کہ ہوتے ہی جار ہے ہیں، لوگ ہیں کہ مرتے اور جیتے ہی جا رہے ہیں، میڈیا ہے کہ کچھ بتاتااور کچھ چھپاتا ہی جا رہا ہے، لیکن لگتا ہے کہ اصل میں کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ کچھ ہونے سے مرادکیا عوام کی کسمپرسی سے نجات نہیں ہونی چاہےے؟ یا کچھ ہونے سے مراد محض انتخابات جیتنا ہی ہے؟ نئی منتخب ہونے والی حکومت کیا کرے گی یا کیا کر سکتی ہے؟ اُن کے پاس بھی تو یہی میدان اور یہی گھوڑے ہوں گے ۔ جولائی2018کے انتخابات میں حصہ لینے والی بڑی سیاسی جماعتوں کے نمایاں امیدواروں میں خاندانی سیاست کی چوتھی نسل شامل ہو چکی ہے ۔ ان میں صرف پنجاب کے 8جاگیر دار خاندان موجود ہیں۔ یہ ڈراما نہ جانے کب تک جاری رہے گا کیونکہ تقریباً یہ سب کام آئین کی حدود کے اندر رہ کر ہی ہو رہے ہیں۔ آئین میں بیشمار ایسی گنجائشیں موجود ہیں جن سے سیاسی مافیاکی ذاتی خواہشیں پوری کی جا سکتی ہیں،مثلا ایک ہی امید وار کئی نشستوں پر کھڑا ہوتا ہے اور جیتنے کے بعد آئین کے مطابق ایک نشست اپنے پاس رکھ کر باقی سب کو خالی کر دیتا ہے ۔ جہاں دوبارہ انتخابات ہوتے ہیں۔ اس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے مگر نشستیں چھوڑنے والے امیدواروں کو اس کی بالکل پرواہ نہیں ہوتی ۔اس کی ایک و جہ ےہ بھی ہے کہ ہمارے انتخابی امیدواروں کو قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والی اس حرکت کا آئینی حق حاصل ہے۔ لہذا ان آئینی گنجائشوں سے پورا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اور اگراپنی مرضی کا کوئی راستہ سمجھ نہ آ رہا ہو توٹاک شوز میں آئینی بحث چھیڑ دی جاتی ہے تاکہ کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آئے۔ آئین کو ہر کوئی اس حد تک اپنے حق میں استعمال کر رہا ہے کہ ڈر لگنا شروع ہو گیا ہے کہ کہیں یہ آئین کسی کے استعمال کا ہی نہ رہے۔ سوچیں تو سہی !کہیں ہمارے سیاسی نظام میں موجود خطرناک جراثیم آئین کی اینٹی بائیوٹک کے سامنے قوتِ مدافعت تو حاصل نہیں کر گئے؟ کہیں لوگوں کی کسمپرسی آئین سے امیون تو نہیں ہو گئی۔