یوم شہدائے کشمیر۔ سلامِ عقیدت
آزادی ¾ ِتحریک ِ جموں وکشمیر کی خونچکاں تاریخ کے لہو رنگ باب آج سے87 برس قبل 13 جولائی 1931ءسے کشمیریوں نے اپنے لہو سے لکھنی شروع کی تھی جو تادم ِ تحریر بھارتی قابض فوج کی سلگتی ہوئی سنگینوں کے تلے لکھی جارہی ہے کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسنز کا ظلم جو رکنے کا نام نہیں لے رہا اور کشمیری حریت پسند اپنے سروں سے کفن باندھے ہر قیمت پر اپنی آزادی کے حصول کی مزاحمت میں آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں پاکستان اور مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں آباد کشمیری 13 جولائی کی تاریخ کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے آج سے87 برس قبل یہی تھا وہ سیاہ دن ‘ جب کشمیری مزاحمت پسندوں نے اپنے پختہ ایمان کی طاقتوں سے لیس ظالم ا ورسفاک ہندو ڈوگرا مہاراجہ کے انسانیت کش ظلم وستم کے سامنے اپنے سرجھکانے سے انکار کیا تھا آج کشمیریوں کی تیسری بلکہ چوتھی نوجواں نسل اپنے شہدا بزرگوں کی پیروی میں اپنے سروں سے کفن باندھ کر اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کے پُریقین بھروسہ پر بھارتی غاصب فوج کے سامنے سینہ سپر ہیں ،13 جولائی1931ءآزادی ¾ ِ کشمیر کا ایک اہم ترین واقعہ ‘ یہی تھا سخت مزاج متعصب ظا لم وسفاک ڈوگر ا حکمران راج کے مظالم کے خلاف کشمیر کی آزادی کے لئے سراپا پُرامن احتجاج کرنے والوں پر درندہ صفت ڈوگرا فوجیوں نے اندھادھند فائر کھول دیا تھا انتہائی خونریز سفاکانہ فائرنگ کے نتیجے میں اُس روز 21 مسلمان کشمیری شہید ہو گئے تھے اُس تاریخی موقع پر ایک ایسا غیر ملکی صحافی دانشور ’مسٹر ویکفی لیٹر ‘ بھی وہاں موجود تھااور وہ خود ڈوگرا انتظامیہ کا ایک اعلیٰ افسر بھی تھا ،اُ س نے اپنی یادداشت میں لکھا ہے’ شہید ہونے والے سبھی کشمیریوں نے اپنے سینوں پر گولیاں کھائی تھیں اُسی وقت اُس نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ کشمیریوں کی13 جولائی1931ءکی انسانی عقلوں کو حیران وششدر کر دینے والاجرا¿ت و بہادری کا یہ بے باکانہ منظرکبھی آسانی سے بھلایا نہیں جا سکے گا ،وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ ’کشمیریوں کی نسل کبھی بزدل کہلائی نہیں جاسکتی ہاں! مگر، ایک حقیقت جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ڈوگرا راج کے بعد کا وقت اہل ِ کشمیر کے لئے اور زیادہ سخت امتحان اور آزمائش کا پہاڑ بن کر آئے گا وہ وقت کٹھن مراحل کا پُرمصائب وقت ثابت ہوگا اور آج87 برس بعد اُس کی کہی ہوئی یہ پیشن گوئی بالکل صحیح ثابت ہورہی ہے اگست 1947ءکو تقسیم ِہند کے موقع پر کانگریسی متعصب لیڈروں نے جب دیکھا کہ اُن کی مرضی کے خلاف برصغیر کی تقسیم کی بات مان لی گئی ہے تو سردار ولبھ بھائی پٹیل جیسے زہریلے متعصب ذہن رکھنے والے آر ایس ایس جیسی متشدد تنظیم کے کار سیوک نے ’ہندو مسلم ‘ نفرتوں کے ایسے سنگین شعلوں کو ہوادی ،جس کی وجہ سے نوزائیدہ مسلم مملکت پاکستان سے ملحق بھارتی سرحدی علاقوں میں بشمول مشرقی پنجاب کی مسلم آبادی پر انسانیت سوز مظالم ڈھانے شروع کردئیے گئے، جس کے نتیجے میں دنیا بھر کی ماضی میں ہونے والی ہجرتوں کی تاریخ نے شائد ہی کبھی اتنا ہولناک ‘دردناک ‘ اور دلوں کو دہلا دینے والا خونریز منظر کبھی رقم کیا ہو‘ نوزائیدہ مملکت ِ پاکستان کو وجود میں آتے ہی کثیر تعداد میں لٹے پٹے مسلمان خاندانوں کا بوجھ اُٹھانا پڑا، چونکہ جون 1947ءکے’ لندن تقسیم ِ ہند‘ کے پلان میں مذہب یا فرقہ کی بنیاد پر آبادی کی نقل ِ مکانی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا انسانی مصائب کے یہ پہاڑ متعصب زہریلے نفرتوں سے بھرے ہندو لیڈروں کے کرتوں کا کیا دھرا تھا آہ وبکا کا یہ خون آشام موقع بانی ¾ ِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور اُن کے حکومتی رفقاءکے لئے ایک کڑی آزمائش کی صورت اختیار کرگیا، ایسے میں انگریز لارڈ ماونٹ بیٹن جسے بھارتیوں نے اپناپہلا گورنر جنرل بنالیا جس کے دل میں پہلے ہی مسلم لیڈروں کے قائد ’قائداعظم محمد علی جناح‘ کے خلاف حسد اور بغض وعناد بھرا ہوا تھا، اُس نے کشمیری ڈوگرا مہاراجہ سے ساز باز کرکے’لندن کے تقسیم ِ ہند پلان ‘ کی خلاف ورزی کی اور ایک ایسی ریاست جس میں90% آبادی واضح مسلم اکثریتی آبادی تھی جس کا الحاق لندن پلان کی روح مطابق ہر صورت میں پاکستان سے ہونا تھا، وہاں بھارتی فوج کشی کردی گئی، یوں 87 برسوں سے کشمیر میںبھارت فوج آج تک موجود ہے جس پر پاکستان اور بھارت کے مابین پہلی جنگ لڑی گئی لیکن عین وقت پر جب پاکستان کی بہادر افواج نے سرینگر کے قلب پر پاکستانی پرچم ابھی گاڑ نا ہی تھا کہ نہرو نے عالمی طاقتوں کی جوتیوں میں اپنا سر رکھ دیا، لارڈ ماونٹ بیٹن کی سازش نے اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے فوراً جنگ کی اپیل کردی، یہ عذر اور سفارتی حیلہ سازیاں اپنائی گئی کہ جونہی کشمیر میں حالات نارمل ہونگے بھارتی حکومت اقوام ِ متحدہ کی نگرانی میں جموں وکشمیر میں حق ِ استصواب ِ رائے کرانے کی پابند ہو گی آج کتنی دہائیاں گزر گئیں؟ عالمی طاقتیں خاموش‘ اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے منظور شدہ قراردیں گرد آلود‘ آج بھی 7 برس قبل جیسے13 جولائی1931ءکو کشمیر کے بزرگوں کے بزرگ غیر انسانی مظالم ومصائب سہہ کر اپنی ملی وثقافتی آزادی کے لئے اپنے قیمتی لہو کے نذرانے پیش کررہے تھے یہ سلسلہ ہنوز جاری وساری ہے، آج تک مقبوضہ جموں وکشمیر میں غیر ملکی قابض بھارتی افواج موجود ہے کشمیر کی سرزمین پر بھارتی ظلم وستم کا ویسا ہی بازار گرم ہے جیسا کبھی ڈوگرا حکمرانوں کے دور میں گرم رہا کرتا تھا ہاں ایک تبدیلی مقبوضہ وادی میں ضرور آئی ہے وہ یہ کہ کانگریسی ہویا نئی دہلی کی کوئی مرکزی حکومت ہو بھارتی سیکولر ازم کے نعرے لگانے والوں کا دور بھارت میں ختم ہوچکا ہے اب بھارتی متشدد جنونی مسلمح ہندو غنڈہ تنظیموں نے سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے، کل تک’نام کو سہی ‘ بھارتی کانگریسی قائدین اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر کبھی کبھار پاکستان کی چیخ وپکار کا کچھ جواب دے دیا کرتے تھے اب وہ بھی نہیں رہا ،آر ایس ایس نے ’سنگھ پریوار ‘ اور دیش بھر میں ’ ہندوتوا‘ جے شری ماتا ‘ جیسے متعصبانہ عسکریت پسندی کے نعروں کو مرکزی حکومت کی ایماءپر دیش کا ’بندے ماترم کا بدل قرار دیدیاہے یوں وہ اب ’کشمیر‘ کے آئینی اسٹیٹس کو آسانی کے ساتھ تبدیل کرکے دنیا کو پُفریب اور دھوکہ دینے کی مذموم حرکات وسکنات کرنے لگے ہیں نئی دہلی کی یہی بڑی بھول ہوگی جس کے عمیق خطرناک نتائج سے وہ واقف ہوتے ہوئے ’انجان ‘ بننے کی سعی کررہی ہے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم وبربریت کے بہیمانہ ہتھکنڈوں کو بارہا آزمانے کے باوجود نئی دہلی حکومت کو کیا نظر نہیں آرہا کہ آج کی کشمیری مسلمانوں کی تیسری نسل نئے حوصلہ سے نئے عزم کے پختہ یقین وارادے سے لیس بھارتی ناپاک عزائم کو خاک چٹانے کے لئے سیسہ پلائی دیوار بن کر اور توانا تروتازہ ہو تی جارہی ہے لہٰذا نئی دہلی تسخیر ِ کشمیر کا خواب دیکھنا چھوڑے کشمیر میں شعوری بیداری کی نہ روکنے والی لہر کبھی بھی انقلابی رخ اختیار کر سکتی ہے۔