مونوپولرزم سیاسی منطق کےلئے چیلنج
آج دنیا میں جبکہ اقوام عالم نے تاریخ سے یہ سبق سیکھ لیا کہ کس طرح مذاکرات اور سفارتکاری کے ذریعے اپنے تنازعات کو حل کرنا ہے ، سیاسی منطق سے رجوع کی ایسی مایوس کن مثالیں ان سفارتکاری سے نابلد سیاستدانوں کی طرف سے سامنے آ رہی ہیں جو کہ اپنی مرضی کے نظام کو مسلط کرنے کے لئے مونوپولرزم کا سہارا لیتے ہیں۔جنگ کی تباہ کاریوںسے متاثر ہونےوالوںکو جو سفارتکاری اور مذاکرات پر تنازعات کے سستے ترین راستے کے طور پر یقین رکھتے ہیں کو چاہئے کہ اس طرح کے رجحانات کا زیادہ باریک بینی اور ہوشیاری سے خیال رکھیں۔
سیاسی مذاکرات کی تاریخ میں 14 جولائی 2015 کا دن اس لحاظ سے ایک عہد ساز حیثیت کا حامل ہے کہ اس دن بین الاقوامی تنازعہ کے پرامن حل کے لئے دس سالہ سخت محنت کا پھل ایران، چین، روس، برطانیہ، فرانس، جرمنی، امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان ایٹمی سمجھوتے کے جامعہ پروگرام کی اجتماعی منظوری کی صورت میں حاصل ہوا یہ اتفاق رائے اقوام متحدہ کے منشور کی شق نمبر 2 پر عمل پیرا ہونے کے لئے عمل میں آیا تھا. اس طرح 20 جولائی 2015 کو سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2231 کو قبول کر لیا گیا جس کی رو سے اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق تمام پابندیاں ختم کر دی گئیں .
اس عمل کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی بند گلی میں داخل ہونے والے سیاسی اور دیرینہ تنازعات کے حل کرنےکی صلاحیت پر یقین کے لئے ایک نئی امید اور نیک شگون سمجھا گیا. اس دن سے لیکر آج تک عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی جو کہ پوری دنیا میں ایٹمی مسائل کے حل کا حقیقی فورم ہے، نے اسلامی جمہوریہ ایران کے جملہ ایٹمی وسائل پر مربوط اور بھرپور نگرانی کا آغاز کیا اور اپنی شائع شدہ رپورٹوں میں اس بات کی توثیق کر دی کہ اسلامی جمہوری ایران نے ایجنسی کی ساتھ طے پانے والے معاہدے کی پوری طرح پابندی کی ہے۔.
14 جولائی 2015 کو اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی میںایک جرات کی مثال کے طور پر ابھرنے والی یہ سیاسی منطق پورے عالم میں ان تمام ممالک کے لئے پورے عالم میں تعمیری تعامل کی روشن مثال بن سکتی تھی جو کہ عالمی نظام کو شک کی نظر سے دیکھتے ہوئے غیر لچکدار رویہ اپنائے ہوئے تھے . نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے یہ بین الاقوامی روشن مثال امریکہ کے 8 نومبر 2016 کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں ظاہر ہونے والے نہ رجحان کے بروئے کار آنے سےاپنے آئیڈیل راستے سے دور کر دی گئی. امریکہ میں نئی حکومت نے عالمی نظام میں مونوپولرزم اور امریکہ کے واحد سپر طاقت ہونے کے زعم کی بنا پر اول روز سے ہی ایک چھوٹے گروہ کے اقتصادی مفادات کے حصول اور بڑے اکثریتی مفادات کی تباہی کے راستے پر گامزن ہو گئی۔
امریکی حکومت کی یہ بغاوتیں نہ صرف بین الاقوامی ایٹمی سمجھوتے سے الگ ہونے کی صورت میں ظاہر ہوئیں بلکہ امریکہ کے پیرس معاہدہ برائے موسمیات، ٹرانس پیسیفیک، یونیسکو تنظیم، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے الگ ہونے اور سب سے بڑھ کرالمیے کی بات، بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے کے یکطرفہ فیصلے کی صورت میں سامنے آئی ہیں جو حکومتیں اور ممالک امن کے قیام اور دنیا کے محفوظ و پرسکون مستقبل میں اپنا کوئی کردار سمجھتے ہیں ان کی طرف سے امریکہ کی سرکشی کا سنجیدہ جواب دیا جانا چاہئے . اس طرح کے جانبدارانہ اور بغاوت پر مبنی رویے کے سامنے عالمی برادری کی خاموشی سے بین الاقوامی نظام میں سیاسی انتشار اور عالمی اداروں سے مایوسی کا راستہ موار ہو گا اور اس کی بدترین صورت امتیازی احساس سے جنم لینے والا تشدد اور انتہا پسندی کی شکل میں سامنے آئے گا۔
امریکہ کی ایٹمی سمجھوتے سے الگ ہونے کی اصل وجہ اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے اس کی پابندی نہ کرنا نہیںبلکہ اس کی حقیقی وجہ امریکہ میں بر سر اقتدار آنے والی غیر سفارتی نوعیت کی نئی حکومت کی جانبدارانہ اور دھونس پر مبنی وہ پالیسیاں ہیںجو کہ ایرانی قوم کی گذشتہ چار دہائیوں پر مشتمل دباو¿ اور طاقت کے خلاف مزاحمت اور سختیاں برداشت کرنے کی روایت سے ناواقفیت کی بنیاد پر بنائی گئی ہیں. اسلامی جمہوریہ ایران کا 2015 میں ایٹمی مذاکرات میں لچکدار رویہ جسے اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر نے ایک جراتمندانہ تبدیلی سے تعبیر کیا، ایسا موقع تھا جسے غنیمت سمجھا جانا چاہتا نہ کہ ایک ایسا چیلنج جسے عبور کرنے کی کوششیں عمل میں لائی جاتیں . ایرانی قوم جس نے 1980-1988 تک ایک بین الاقوامی اتحاد کے خلاف طویل یکطرفہ جنگ کا تجربہ حاصل کیا، دسیوں پابندیوں کو کامیابی سے برداشت کیا، اس کے لئے یہ جراتمندانہ تبدیلی ایک سیاسی ٹیسٹ بھی تھا. ایسا سیاسی ٹیسٹ جس میں مذاکرات کرنے والوں کی کامیابی، عالمی برادری اوراس کے حقیقی کرداروں پر ایرانی قوم کے ایک بار پھر اعتماد کو بحال کرنے جیسے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتی تھی جس سے ان کے درمیان مثبت و تعمیری تعاون عمل میں لایا جا سکتا تھا.
امریکہ کے ایٹمی معاہدے سے الگ ہونے کی وجوہات کو دیکھا جائے تو جملہ سیاسی وجوہات کے ساتھ ایک اقتصادی وجہ بھی ہے۔ ایٹمی معاہدے کے بعد ایران نے ایک بے مثال قدم اٹھاتے ہوئے کافی حد تک اپنی ایٹمی سرگرمیاں روک دیں اور کچھ تنصیبات کے مصارف بھی تبدیل کر دیہ ، پوری دنیا کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں بھی پھر سے شروع ہو گئیں لیکن طویل عرصے تک پابندیوں میں جکڑے ملک کی بڑی مارکیٹ کا امریکہ کے حریفوں کے لئے کھل جانا اور ایرانی تیل اور گیس کی آزادانہ فروخت سے کچھ ایسے آثار نمودار ہونے شروع ہوئے جو امریکہ اور اس کے کچھ علاقائی اتحادیوں کےلئے قابل برداشت ہر گز نہ تھے. ایٹمی معاہدہ در حقیقت وہ پہیہ تھا جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حریف ممالک کی طاقت اور ترقی کی سفر کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھانے والا تھا. اس وجہ سے امریکی حکومت کی مجبوری تھی کہ اقلیتی ٹولے کی معاشی بقا اور حریفوںکی ترقی کی رفتار کو کم کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ ہاتھ پاو¿ں مارے. اگرچہ اس کی قیمت کسی قوم کا عالمی برادری پر سے اعتماد اٹھ جانے اور انتشار کے فروغ کی صورت میںہی کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔
ایٹمی معاہدے سے یکطرفہ امریکی انخلا، اسلامی جمہوریہ ایران اور اسکی داخلی یکجہتی کے لئے کسی گزند سے زیادہ عالمی نظام میں ملٹی پولرائزیشن کے راستے میں حاصل ہونے والی کامیابی اور سیاسی منطق کے باب میں تاریخی میراث کے اوپر ایک کاری ضرب تھی . کیونکہ ایرانی عوام نے اسلامی انقلاب کی 40 سالہ تاریخ میں مزاحمت اور یکجہتی کا درس خوب یاد کیا ہے لیکن عالمی نظام نے ابھی تک مونوپولرزم کے سامنے مزاحمت اور ملٹی پولرائزیشن کی وراثت کی کامیاب پاسداری کا سنگ میل عبور نہیں کیا ہے۔