بلوچستان کی بھی خبر لیں
کہتے ہیں زندہ قومیں ہمیشہ اپنے ماضی پر نظر رکھتی ہیں کیونکہ مستقبل کی جڑیں ہمیشہ ماضی میں ہوتی ہیں۔ قومیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں اور کوشش کرتی ہیں کہ ان غلطیوں کو مزید نہ دہرایا جائے۔ قوموں کی تاریخ میں بار بار غلطیاں تباہ کن ثابت ہوتی ہیں۔ ہمیں افسوس سے یہ ماننا پڑتا ہے کہ ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا اور سیکھنے کیلئے تیار بھی نہیں۔ سانحہ مشرقی پاکستان ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ یہ وہ داغ ہے جسے ہم آج تک نہیں دھو سکے اور جب تک ہم اسے دھوئیں گے نہیں ۔ اسوقت تک ہماری تاریخ ایک مفتوح اور کمزور قوم کی ہی رہے گی۔یاد رہے کہ مفتوح اور کمزور اقوام کی دنیا میں کہیں بھی عزت نہیں ہوتی۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ ہماری تاریخ میں اتنا بڑا سانحہ ہو گیا ۔ہماری 90ہزار فوج دشمن کی قید میں چلی گئی مگر قوم کو آج تک نہیں پتہ کہ اس سانحہ کی اصل وجوہات کیا تھیں؟پسِ پردہ حقائق کیا تھے ؟اصل ذمہ دار کون تھا؟ ایک ہائی لیول انکوائری ضرور ہوئی مگر کچھ ذاتی وجوہات کی وجہ سے رپورٹ قوم کے سامنے نہ لائی گئی جو بہت بعد میں ایک عظیم راہنما کے بیڈ روم کی ذاتی الماری سے ملی اور اس سے بھی ایک اہم باب غائب تھاجو غالباً حاکم وقت کے کردار کے متعلق تھا۔بعد میں یہ رپورٹ بھارت میں شائع ہوئی جس سے پاکستانی عوام کو کچھ حقائق کا پتہ چلا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس سانحہ کے ذمہ دار ان کو قوم کے سامنے لایا جاتا اور انہیں سرِ عام پھانسی دی جاتی تا کہ آئندہ کوئی وطن دشمنی کی جرا¾ت نہ کرتا۔ مگر افسوس کہ ایسا کچھ نہ ہوا۔ معاملہ اس طرح دبایا گیا کہ یہ قوم کے ذہنوں سے بھی نکل گیا۔ کچھ لوگوں کی رائے میں غدارانِ وطن لیڈر زبن کر ابھرے اور یوں قوم کی عزت ہمیشہ کیلئے ڈوب گئی۔
یہ ساری تفصیل دینے کا مقصد یہ ہے کہ قوم کو ماضی کی اہم غلطی کا احساس دلایا جائے تا کہ مستقبل میں ایسی غلطی کو روکا جا سکے۔ بدقسمتی سے اسوقت صوبہ بلوچستان میں (خدانخواستہ) مشرقی پاکستان جیسے حالات جنم لے رہے ہیں ۔ صوبہ بلوچستان علاقہ کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ آبادی کا تناسب بہت کم ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس صوبے کو بہت سی قیمتی معدنیات سے نوازا ہے۔ تزویراتی طور پر بھی یہ صوبہ بہت اہم ہے۔ بہت سے دشمنوں کی نظریں اس صوبے پر ہیں۔ قوم کو پتہ ہونا چاہیے کہ صوبہ بلوچستان میں مشرقی پاکستان کی طرح تحریکِ آزادی چل رہی ہے۔ اس تحریک کے سربراہ بلوچ سردار ہیں جو بلوچستان سے بھاگ کر یورپ اور امریکہ میں مقیم ہیں۔ بھارت اور کچھ امریکی اور یورپی لیڈرز انکی مدد کررہے ہیں۔ پیسے کی فراوانی ہے۔عیاشی سے ساری دنیا میں پھرتے ہیں ۔بلوچستان کی آزادی کیلئے جگہ جگہ مظاہرے کرتے ہیں ۔ لیکچرز دیتے ہیں۔ مظلومیت کے قصے بیان کرتے ہیں۔ یہاں بلوچستان میں ان باغی سرداروں نے اپنے جتھے بنا رکھے ہیں جنہیں افغانستان میں را اور افغان ایجنسی این ڈی ایس مل کر دہشتگردی کی تربیت دیتی ہیں۔ اسلحہ اور نقد رقوم بھی فراہم کرتی ہیں اور پھر ان سے بلوچستان میں دہشتگردی کراتی ہیں ۔انکی مدد کیلئے تحریکِ طالبان اور دولتِ اسلامیہ کے تربیت یافتہ دہشتگرد بھی بلوچستان بھیجے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں کوئی دن خالی نہیں جاتاکہ دہشتگردی کا واقعہ نہ ہو۔اب تو ہر روز دوچار لوگ موت کے گھاٹ اتار دئیے جاتے ہیں تا کہ امن قائم نہ ہو سکے اور صوبے میں افراتفری پھیلے۔بھارت بلوچستان کی علیحدگی پر کام کررہا ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے علی الاعلان لال قلعہ کی دیوار پر کھڑے ہو کرکہا تھا کہ پاکستان کو بلوچستان سے ہاتھ دھونے پڑینگے۔
بلوچستان کی تزویراتی اہمیت بھی علیحدگی کی تحریک کا ایک اہم فیکٹر ہے۔امریکی فوج عرصہ17سالوں سے افغانستان میں طالبان کیساتھ جنگ کے نام پر مقیم ہے۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کی رائے میں جنگ تو محض ایک بہانہ ہے جبکہ امریکہ افغانستان میں مستقل قیام کا خواہش مند ہے امریکی افواج کی لاجسٹک سپورٹ کا راستہ بلوچستان سے گزرتا ہے اس لئے امریکہ کی مجبوری ہے کہ وہ بلوچستان سے گزرنے والے راستے پر اپنا کنٹرول حاصل کرے۔ ماضی میں کچھ ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں کہ پاکستان نے یہ راستہ بند کردیا تھا تو لاجسٹک سپورٹ کیلئے امریکہ کو بہت تکالیف اٹھانی پڑیں۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ سی پیک پاکستان کا ایک اہم ترین منصوبہ ہے جو تیزی سے تکمیل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان ایک تو معاشی طور پربہت مستفید ہوگا اور دوسرا چین کا اثرروسوخ بھی یہاں بہت بڑھ جائیگا بلکہ پاکستان مکمل طور پر امریکہ سے دور ہو کر چین کے حلقہ اثرمیں چلا جائیگا اور یہ چیز نہ بھارت کیلئے قابلِ برداشت ہے اور نہ امریکہ کیلئے ۔لہٰذا امریکہ اور بھارت کے مفادات مشترک ہو گئے ہیں ۔ اب دونوں اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کیا جائے۔ اسی لئے انہوں نے وہاں خانہ جنگی شروع کرا رکھی ہے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر جب ہم غور کرتے ہیں تو سب سے پہلا اعتراض یہ سامنے آتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں نا انصافی ہوئی ۔ساری ترقی مغربی پاکستان میں ہوئی جبکہ مشرقی پاکستان کو اگنور کیا گیا۔ بنگالیوں کا یہ بھی اعتراض تھا کہ زر مبادلہ تو پٹ سن سے کمایا جاتا تھا جو مشرقی پاکستان کی پیداوار تھی مگر یہ خرچ مغربی پاکستان میں ہوتا تھا۔اسی لئے بنگالی کہتے تھے کہ اسلام آباد کے بنگلوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے۔ پھر ہم نے وہاں بنگالیوں کو ہم سے متنفر کر نیوالی بھارتی تحریک کو روکنے کا بھی کوئی بندوبست نہ کیا۔ 1970 کے انتخابات میں کوئی ایسی قومی پارٹی سامنے نہ آئی جو دونوں ونگز میں با اثر ہوتی۔ مشرقی پاکستان کو صوبائی قیادت عوامی لیگ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی جیت کر سامنے آئی۔ان دونوں کی آپس میں کوئی انڈرسٹینڈنگ نہ تھی ۔ صوبائی پارٹی عوامی لیگ اس حد تک حاوی ہوئی کہ مشرقی پاکستان کیلئے علیحدگی کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہا۔یہی حالت اسوقت بلوچستان میں ہے ۔ہمارے دشمن وہاں آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں ۔دہشتگردی روزمرہ کا معمول بن چکی ہے جس سے امن و امان کی حالت نا گفتہ بہ ہے اور سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اسوقت جبکہ انتخابات سر پر ہیں بلوچستان کی طرف کوئی بڑی سیاسی پارٹی توجہ بھی نہیں دے رہی۔ نہ ہی کسی بڑے لیڈر نے وہاں جا کر انکی خبر لینے کی کوشش کی ہے ۔وہاں صرف صوبائی سیاسی پارٹیاں کام کررہی ہیں۔ مشرقی پاکستان کی طرح انکے اپنے مفادات ہیں۔وہاں کی کوئی پارٹی وہاں سے نکل کر کسی اور صوبے میں نہیں گئی۔ سیاسی اور انتظامی حالات وہاں پہلے ہی خراب ہیں۔ بلوچستان کی بہت سی محرومیاں بھی ہیں۔ امریکہ بھارت اور افغانستان وہاں اپنے مذموم عزائم بڑی چالاکی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان حالات میں بلوچستان محض صوبائی پارٹیوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا اور بڑی پارٹیوں کا بلوچستان کو مکمل طور پر اگنور کرنا ملکی سلامتی کیلئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔اب وقت ہے کہ ہمیں بلوچستان پر توجہ دینی چاہیے۔