جمعة المبارک 28 شوال المکرم 1439 ھ ‘ 13 جولائی 2018ء
نااہلی کیس: نثار کھوڑو سے تیسری شادی کیلئے دو بیویوں کی اجازت طلب
نثار کھوڑو بھی عجب مشکل میں پڑ گئے ہیں، آگے آگ اور پیچھے کھائی والا معاملہ ان کو درپیش ہے۔ لوگوں سے ایک بیوی نہیںسنبھالی جاتی‘ حضرت 3 شادیاں بھگتا چکے ہیں۔ پہلی اور دوسری ہنوز حبالہ عقد میں ہیں جبکہ تیسری سے سات سال بعد رشتہ منقطع کر لیا۔ یعنی علیحدگی اختیار کر لی یہ ساری کہانی کسی کو پتہ ہی نہیں تھی۔ یہ تو برا ہو الیکشن کمشن کا جس نے انتخابی امیدواروں کے فارم میں یہ گھریلو معلومات بھی پوچھی ہیں جن کی وجہ سے کئی امیدواروں کے گھروں میں پانی پت کی کہہ لیں یا پتی پتنی کی لڑائیاں ہو رہی ہیں۔
کئی معصوم بیویوں کو اب ان فارموں کی بدولت پتا چلا ہے کہ ان کے معصوم شریف شوہر ان کے علاوہ بھی ایک عدد یا دو عدد بیگمات کے شوہر نامدار ہیں۔ اب یہ اتنا بڑا انکشاف آسانی سے کوئی بیوی ہضم نہیں کر سکتی۔ نثار کھوڑو صاحب کا تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ عدالت نے ان کی تیسری شادی سے متعلق کیس میں درست جملہ کہا ہے کہ وہ نماز بخشوانے آئے تھے کہ روزے گلے پڑ گئے۔ نثار کھوڑو صاحب لگتا ہے بری طرح پھنسے ہیں۔ اول انہوں نے غیر قانونی طریقے سے یہ شادی زبانی کلامی کی جو قانون کے مطابق جرم ہے۔ شادی کا فارم پر ہوتا ہے قانونی طور پر رجسٹر ہوتی ہے۔ یہ انہوں نے کیا کردیا کہ زبانی کلامی شادی کر لی پھر سات سال بعد طلاق بھی زبانی کلامی دےدی۔
اب عدالت نے پوچھا ہے کہ ایک جرم یہ بھی ہے کیا انہوں نے پہلی دو بیویوں سے اجازت بھی لی تھی یا نہیں۔ اگر نہیں لی تو یہ بھی ایک اور جرم ہے۔ اب نثارکھوڑو کی نہ جانے رفتن نہ پائے ماندن کی حالت ہے۔ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہرہونے تک“
٭....٭....٭
جاپان نے مسلسل تالیاں بجانے والا روبوٹ تیار کر لیا
چلیں اس طرح جن لوگوں کو یہ گلا رہتا ہے کہ لوگ ان کی باتوں پر تالیاں نہیں بجا سکتے اب اطمینان سے یہ روبوٹ خرید کر اس سے تالیاں بجوا کر خوش ہوں گے اپنا شوق پورا کر لیں گے۔ ہر مقرر چند روبوٹ اپنے جلسے میں تقریب میں کرائے پر منگوا کر یا خرید کر بٹھا دیا کرے گا جو وقفے وقفے سے تالیاں بجا کر مجمع گرما دیا کریں گے۔ اس طرح کے روبوٹ تیار ہونے سے ہمارے ملک میں بھی ایک نئے کاروبار کے چانس بڑھ جائیں گے۔ بیروزگاری میں کمی آئے گی۔ کوئی بھی تنہا یا چند اشخاص مل کر یہ روبوٹس منگوا سکتے ہیں جنہیں ہر قسم کی سیاسی یا غیر سیاسی سماجی تقریبات اور مشاعروں میں پرجوش تالیاں بجوانے کے لئے کرائے پر دیا جا سکتا ہے۔ جس طرح بعض علاقوں میں موت پر رونے والے کرائے پر منگوائے جاتے ہیں اسی طرح اب تالیاں بجانے والے روبوٹس بھی دستیاب ہوں گے۔
ان روبوٹس کو کچھ سمجھ تو آئے گی نہیں اس لئے ہر دانا اور نادان کی تقریر پر‘ لطیفے پر، شعر پر خوب تالیاں بجا بجا کر داد کی کمی دور کر دیں گے اور مقرر یا شاعر کا سیروں خون بھی بڑھ جائیگا۔
٭....٭....٭
مشتاق رئیسانی سے برآمد ایک ارب 30 کروڑ مالیت کے اثاثے حکومت بلوچستان کے سپرد
یہ اچانک کیا کر دیا نیب والوں نے۔ بھلا کہیں بلی کو دودھ کی رکھوالی پر بٹھایا جاتا ہے۔ چیل کے گھونسلے میں ماس چھپایا جاتا ہے۔ جب ایک جمہوری حکومت اپنے ان اثاثوں کی حفاظت نہ کر سکی اور لٹیرے اسے لوٹ کر لے گئے تو یہ نگران کیا کرینگے۔
اب بازیاب ہونے والی یہ دولت پھر واپس انہی کو دی جا رہی ہے جو اسے سنبھال ہی نہ سکیں گے۔اب یہ نگران کون سے دودھ کے دھلے ہیں، یہ بھی تو اسی باغ کے پھل پھول ہیں۔ ابھی تو نیب نے بلوچستان میں اور بھی بہت سا کام کرنا ہے۔ بہت سی وصولیاں باقی ہیں، بہتر ہوتا نیب یہ رقم چیف جسٹس کی طرف سے ڈیمز کے لئے قائم فنڈ میں دے دیتا۔ کم از کم اس سے ملک و قوم کا بھلا ہی ہو جاتا، یہ رقم کہیں پھر ادھر ادھر نہ ہو جائے اور نیب کو پھر نئے سرے سے اس کی برآمدگی کے لئے کسی نئے خراسانی یا دلبرجانی کو پکڑنا پڑے۔
عوام کی بدقسمتی یہی ہے کہ اسے حکمرانوں اور بیورو کریسی کی شکل میں ابھی تک امانتدار اور دیانتدار لوگ میسر نہیں آئے اگر ایسا ہوتا تو آج ہم بھی ترقی یافتہ ممالک کے برابر کھڑے ہوتے۔ صاف پانی، معیاری خوراک اور اعلی تعلیم کی سہولتوں کے پیچھے نہ بھاگ رہے ہوتے۔
٭....٭....٭
الیکشن کمشن میں سرکاری ملازمین کی تعیناتی مکمل۔ دو نابینا اور ایک ہاتھوں سے محروم بھی شامل
اب معلوم نہیں الیکشن کمشن ان دو آنکھوں اور ایک ہاتھوں سے محروم ملازمین سے کیا کام لے گا۔ الیکشن کے موقع پر تو 4 آنکھوں والے اور 8 ہاتھوں والے ملازم کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔
بے شک کسی بھی معذوری کا شکار افراد کو ملازمت ضرور ملنی چاہئے ان کے لئے حکومت کی طرف سے کوٹہ بھی مقرر ہے۔ جو خصوصی افراد تعلیمی یا مطلوبہ قابلیت اور معیار پر پورے اترتے ہوں ان کو ملازمت کا حق ہے مگر یہ الیکشن کمشن میں کام ہی کچھ ایسا ہے کہ یہاں تو دو آنکھوں والے بھی مار کھا جاتے ہیں۔ کیونکہ خلائی مخلوق ہو یا فرشتے ان کو الیکشن کے دوران اپنی کارکردگی دکھانے کا شوق کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے سو وہ بھی اس دن اپنا اپنا ہنر آزمانے نکل پڑتے ہیں۔ ان حالات میں جن نابینا حضرات کو پریذائیڈنگ آفسر مقرر کیا ہے وہ وہاں کیا کریں گے۔ اسی طرح ہاتھوں سے محروم شخص کے لئے بھی پریذائیڈنگ افسر کی ڈیوٹی نبھانا ناممکن ہے۔
ان کی تعیناتی کا فیصلہ جنہوں نے کیا ہے پہلے تو ان کی بصارت اور بصیرت چیک کرنا پڑے گی کہ یہ تعیناتی انہوں نے کس طرح کر دیں۔ یہ ایک انوکھا فیصلہ ہے جو کسی انوکھے لاڈلے نے ہی کیا ہوگا۔ گزشتہ روز کی خبر یہ تھی کہ خواتین اور خواجہ سرا اور معذور افراد بھی مانیٹرنگ کریں گے۔ اب خواتین اور خواجہ سراﺅں تک تو بات قابل قبول ہو سکتی ہے مگر یہ بصارت سے محروم افراد کے لئے خاصہ کٹھن ہو گا کہ وہ کس چیز کی مانیٹرنگ کر سکیں گے۔