تقویٰ
محمد یاسر اقبال
نماز عید کی ادائیگی کے کئے مسجد گیا،جہاں خطیب صاحب نے بیان میں کہا کہ ہم سب متقی ہیں کیونکہ پورے رمضان کے تیس روزے رکھے ہیں یہ بھی بتایا کہ متقی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کریم نے اور ہمارے آخری نبیؐ ہمارے آقاؐ نے جس کام کو کرنے کا کہا ہے وہ کام کیا جائے اور جس کام سے منع کیا ہے مسلمان وہ کام نہ کرے تو متقی بن جاتاہے تو ہم نے تیس روزے رکھے اورتین کام کئے نہ کچھ کھایا نہ کچھ پیا اور جائز خواہشات سے بھی باز رہے اور مثال دی کہ روزے کی حالت میں پیاس لگی ہو اس گرمی کے موسم میں اور کمرے کے اندر فریج میں ٹھنڈا پانی بھی موجود ہو تو مسلمان کو روزے کی حالت میں اس کا اللہ کریم کی ذات پر ایمان اور یقین اس کو پانی پینے سے روکتا ہے اور یہ یقین کہ مجھے اس وقت اور کوئی دیکھے یا نہ دیکھے لیکن ایک اللہ کریم کی ذات عظیم مجھے دیکھ رہی ہے تو اس لئے آپ سب متقی ہیں (نمازیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا ہم صرف یہ تین کام کرنے سے ہی متقی بن گئے اور اس کے علاوہ جو آقاؐ نے اللہ کریم کے اور اللہ کریم بندوں کے حقوق العباد کی نفی ہم روزوں میں کرتے ہیں اُس کی مثال تو باقی سارا سال بھی نہیں ملتی جیسا کہ منافع خوری ذخیرہ اندوزی سچ کے نام پر جھوٹ بول کر کمائی کرنا اسی طرح ہمارے کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر مہنگی چیزیں بیچنا کہ خریدنا گاہک کی مجبوری ہے اور اس کے علاوہ سڑکوں پرجو بدنظمی ملتی ہے خاص طور پر افطاری سے کچھ دیر پہلے اُ س کی مثال پاکستان کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک میں دیکھنے کو نہیں ملتی اور پھر یہ کہ کلمہ پڑھنے والے مسلمان اور روزہ رکھنے والے مسلمان ایک ایسے ملک میں یہ کام کرتے ہیں جو ملک اسلام کے نام پر اور کلمہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ہے اور ایک کلمہ گو مسلمان دوسرے کلمہ گو مسلمان کے ساتھ دھوکہ فراڈ جھوٹ، بے ایمانی اور چیٹنگ کر رہا ہے کلمہ گو مسلمان کسی نان مسلم کے ساتھ بھی یہ کام نہیں کر سکتا اور دین اسلام نے نان مسلم کے حقوق بھی متعین کئے ہیں اور اگر پاکستان سے باہر کی بات کریں یورپ اور امریکہ وغیرہ کی جہاں قانون کی اور انسانی حقوق کی حکمرانی ہے تو وہاں اگر ایک مسلمان کسی دوسرے مسلمان کے حقوق یا نان مسلم کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کرتا تو یہ اسکا تقویٰ نہیں بلکہ اُس نان مسلم یا سیکولر ملک کے قانون کی سختی کی وجہ سے ہے ورنہ ہم مسلمان وہاں بھی ایک دوسرے کی حق تلفی کرنے سے باز نہ آئیں۔
اسلام مسلمانوں کو اپنے عظیم اور مبارک قوانین اور احکامات پر عمل کرنے کا حکم دیتا ہے اور دراصل بن دیکھے اللہ کریم سے ڈرنے کا نام تقویٰ ہے اب اگر ایک مسلمان روزہ رکھتا ہے اور دیگر نیکی کے کام کرتا ہے جو حقوق اللہ کے دائرے میں آ تے ہیں تو اللہ کریم پر یقین کی بنیاد پر کرتا ہے لیکن جب بندوں کے حقوق کے متعلق بات آتی ہے تو اُس وقت ہمارا ایک اللہ کریم کی ذات عظیم پر یقین کہاں چلا جاتا ہے کہ جب ہم لین دین کے معاملے میں ناپ تول میں عدل و انصاف کے معاملے میں اور دیگر جتنے بھی معمولات حقوق العباد کے متعلق آتے ہیں اُن حقوق کو ادا کرنے میں کوتاہی کر جاتے ہیں یا نظر انداز کر جاتے ہیں کیا اُس وقت ہمارے یقین کی کیفیت ختم ہوجاتی ہے یا پھر ہمارے ایمان کا لیول کم ہو جاتا ہے ۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہم بحیثیت مسلمان خود تبدیل نہیں ہونا چاہتے لیکن دوسروں توقع کرتے ہیں کہ وہ تبدیل ہوجائیں اس وطن عزیز پاکستان میں جو مسئلے مسائل ہیں وہ ہمارے بُرے اعمال اور کردار کا نتیجہ ہیں اگر ہم لوگ دل سے ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہوجائیں اور ایک دوسرے کے جائز حقوق ادا کرنا شروع کر دیں میں یقین سے کہتا ہوں اللہ کریم کی رحمت سے سارے مسئلے حل ہو جائینگے ۔اللہ کریم سے دعا ہے اللہ کریم اپنی اور اپنے محبوب ؐ کی سچی محبت عطا فرمائے اورصحیح معنوں میں حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین