دو قومی نظریہ ہمارے حکمران اور صحافی
حکمرانوں نے دو قومی نظریہ ایک طرف رکھ دیا ہے۔ پاکستان میں مفادات کی سیاست کر رہے ہیں۔یہ چیز پاکستان کی ساا لمیت کے خلاف ہے۔ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ صحافیوں نے بھی اپنی سوچ بدل دی ہے۔ پہلے یہ عرض کرنا ہے کہ دو قومی نظریہ کے حامی صحافیوں کو مجھ سمیت دو قومی نظریہ سے محبت رکھنے والے دیگر لوگ اس وقت سے مطالعہ کرتے رہے ہیں اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جب سے انہوں نے اپنے رسالے اور اخبار شائع کرنے شروع کیے تھے۔ سینئر صحافی اور کچھ دوسرے صحافی حضرات نے نواز شریف صاحب کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے، فوج کے کردار،عدلیہ کے فیصلہ، خلائی مخلوق کی کار روائیوں،سینٹ کے ممبران کے چنائواور سینیٹ کے انتخابات، اور موجودہ الیکشن پر بحث بھی کی۔ جو معمولی اختلافات کے ساتھ اگر صحیح بھی مان لیے جائیں تو بہتر ہوتا کہ ان کے کردار کو بھی زیر بحث لاتے تو شاید سینئر صحافی سمجھتے ہوئے ہم ان کی باتیں ہضم کر لیتے۔ گزارش یہ کرنی ہے کہ کیا نواز شریف نے نظریہ پاکستان کی نفی نہیں کی؟ ہم اس سلسلے میں قائد اعظم ؒکا بیان اور نواز شریف کا بیان قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔قائد اعظم ؒنے دو قومی نظریہ یعنی نظریہ پاکستان کی تشریح کرتے ہوئے ۲۳؍ مارچ ۱۹۴۰ء میں لاہور میں فرمایا’’ہم مسلمان ہندوئوں سے علیحدہ قوم ہیں،ہمارا کلچر، ہماری ثقافت ، ہماری تاریخ،ہمارا کھانا پینا ہمارا معاشرہ ان سے یک سر مختلف ہے‘‘اس کی نفی کرتے ہوئے اقتدار کے زعم میں مبتلا نواز شریف اسی لاہور میں۱۴؍اگست ۲۰۱۱ء کو فرماتے ہیں ’’ہم مسلمان اورہندو ایک قوم ہیں۔ہمارا ایک ہی کلچر۔ایک ہی ثقافت ہے۔ہم کھانا بھی ایک جیسا کھاتے ہیں۔صرف درمیان میں ایک سرحد کا فرق ہے‘‘کیا ساری عمر نظریہ پاکستان جو بانی پاکستان کا بیان کردہ دو قومی نظریہ ہے ،کے حق میں لڑنے والے دو قومی نظریہ کے محافظ صحافی بھائی نے ان کے بیان کا تجزیہ نہیں کیا؟ اس بیان کے چند ہی روز بعد لاہور کے نوائے وقت نے اپنے اداریے میںنواز شریف کے اس بیان پر گرفت کی تھی۔ دو قومی نظریہ کے حامی عوام کو یہ معلوم ہے یہ بیان کانگریس کے موقف ، کہ قومیں اُوطان یعنی وطن سے بنتی ہیں اور سیکولر نظام ِحکومت کے نظریے اور تقسیم کے وقت ہندوئوں لیڈروں کے ذہن سے بالکل مطابقت رکھتا ہے ۔ انہوں نے تقسیم کے وقت نہیں کہا تھاکہ جب جب دو قومی نظریہ کمزور پڑتا جائے گا ہم پھر پاکستان کو اپنے ساتھ ملا کراکھنڈ بھارت مکمل کر لیں گے۔اس کی تعبیر پاکستان کو دو ٹکڑے کرتے ہوئے اندرا گاندھی نے اس طرح کی تھی۔’’ ہم نے قائد اعظم ؒکا دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیاہے۔مسلمانوں سے ہند وستان پر ایک ہزار سال حکومت کرنے کا بدلہ بھی لے لیا‘‘ جمہوری طرز حکومت میںاقتدار آنی جانی چیز ہے آج کوئی ہے تو کل کوئی اور۔ مملکت پر کبھی بھی حرف نہیں آتا۔ مگر اقتدار سے باہرہونے کے بعد نواز شریف نے مملکت اسلامی جمہوریہ، مثل مدینہ ریاست پر یہ کہہ کر حملہ کر دیا کہ شیخ مجیب صحیح تھا اور ریاست صحیح نہیں تھی۔ جب کہ پاکستان میں مشہور و معروف ہے کہ شیخ مجیب غدارِ وطن ہے۔ شیخ مجیب کے دیے گئے ایک انٹر ویو کے مطابق اس نے ۱۹۴۸ء سے ہی پاکستان توڑنے کی مہم شروع کر دی تھی۔(حوالہ ڈاکٹر صفدر مضمون رسالہ ترجمان القرآن ماہ فروری ۲۰۱۸ئ)۔نواز شریف کو ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے اقتدار سے ہٹایا۔ کیا یہ ان ہونی چیز ہے ۔اس سے قبل پیپلز پارٹی کے دو وزیر اعظموں کو اقتدار سے ہٹا چکی ہے۔ پی ٹی آئی کے سیکر ٹیری جنرل کو نا اہل قرار دے چکی ہے۔ان تینوں نے تو مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان پر حملہ نہیں کیا۔ کیا کبھی پاکستان کے کسی بھی حکومت کے وزیر اعظم اپنی حکومت پر یہ الزام لگایاہے کہ دہشت گردی میں پاکستان کی حکومت شامل ہے۔ نواز شریف نے ڈان کے صحافی المیڈاکو خصوصی طورپر ملتان بلا کر انٹر ویو دیا اور کہا کہ حکومت لوگوں کو سرحد پار نہ کرنے دیتی تو ممبئی میں لوگ ہلاک نہ ہوتے۔ جبکہ جرمن کے صحافی نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ یہ بھارت اسرائیل اور امریکا کی سازش ہے۔ اسی المیڈا کو قومی سلامتی کی میٹنگ کی خفیہ کارروائی کی روداد بتائی ۔ نواز شریف کو اس پر اپنے وزیر اطلاعات کو فارغ کرنا پڑا کبھی بھی کسی بھی پاکستان کے سپہ سالار سے نواز شریف کی نہیں بنی۔ کیا یہ ان کی طرف پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو خوش کرنے کی کوشش تو نہیں ؟ پاکستان کے دشمن اور گریٹ گیم کے سرغنے، ایٹمی و میزائل اور اسلامی پاکستان کی فوج کو کمزور کرنے کے لیے ،کبھی روگ فوج ،بھی کرائے کی فوج اور نہ جانے کون کونسے الزامات سے لگاتے رہتے ہیں۔کیاان قوتوں کو خوش کرنے کی کوشش نہیں کہ نواز شریف ہمیشہ فوج سے لڑتے رہے ہیں؟ ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں وقت ختم ہونے سے قریب ایک دو گھنٹہ پہلے کہتے سنے گئے کہ مجھے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت چاہیے ۔ نواز شریف کے سیاسی مخالف کہتے ہیںیہ کیا ان لوگوں کو ہی کہا گیا تھا؟۔کیا کوئی حکمران پاکستان کے آئین میں ختم نبو ت کی طے شدہ دفعات کو ختم کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔ہاں اسی نواز شریف نے ایسی جسارت کی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ دینی جماعتوں اور عوام کی گرفت کرنے پر اپنے وزیر قانون کوبے دخل کرنا پڑا۔اب تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ الیکشن ایکٹ میں ختم نبوت کی شقیںدیدہ دانستہ طور پر تبدیل کرنے کی کوشش میں نو ن حکومت شریک ہے کورٹ نے راجہ ظفرلحق روپورٹ بھی شائع کرنے کاحکم جاری کیا جو اب جاری ہو چکی ہے۔ دیر تک اقتدار میں رہنے سے نواز شریف میں تکبر پیدا ہو گیا تھا۔ اسی لیے امریکا کے صدور کو بھی دو دفعہ ہی موقع دیا جاتا ہے۔ اس وقت دو قومی نظریہ کے دشمن تو دشمن ، اپنے بھی مخالف ہو گئے۔ اپنے بھی کیا جن کو عوام نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم جو د وقوی نظریہ کی بانی اور قائد اعظمؒ ، بانی پاکستان کی جماعت کے پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والے نواز شریف دو قومی نظریہ کی مخالفت پر اُتر آئے ہیں۔ ددو قومی نظریہ کے حامی صحافی کی پہلے سے زیادہ جد وجہد کی ضرورت ہے۔ہماری گزارش ہے کہ چھوٹے چھوٹے واقعات، فوج اور عدلیہ کے فیصلوں کو ایک طرف رکھ کر مملکت کے بڑے کینوس کو سامنے رکھتے ہوئے حکمرانوں کو تولتے رہا کریں۔ اس راستہ سے اگر حکمران ہٹ جائیں تو ان کے خلاف جہاد کریں ورنہ عوام سمجھنے لگیں گے کہ دو قومی نظریہ کے محافظ سینئر صحافی بھی سیکولر پاکستان دشمن قوتوں کے سامنے تھک ہار کر بیٹھ گئے ہیں۔اللہ کرے ہمارا شگون غلط ہو۔حکمران تو آنی جانی شے ہیں۔ مملکت اسلامی جمہوریہ ، پاکستان نے باقی رہنا ہے۔اللہ اس کی حفاظت فرمائے۔آمین۔