تحریر: گوہر زمان
یوں تو لکھنے والے نجانے کیا کچھ لکھ جاتے ہیں ، اچھا برا سب لکھتے ہیں اوربعض اوقات تو بس لکھتے ہی چلے جاتے ہیں چاہے وہ کسی کوقبول ہو یا ناقبول ۔ لکھنے کی عادت جوہوئی بھلے سے لکھا بے معنی اور ’’ نا تمام‘‘ ہی کیوں نہ ہو ، بات اگر نہ بن پائے اور لکھنے سے مسائل مزید الجھنے لگیں تو پھر ’’ جرگہ‘‘ بھی کام نہیں آتا، ہاں بعض لوگوں کا ’’چہرہ‘‘ ضرور بے نقاب ہو جاتا ہے اور پھر ’’بے نیازیاں‘‘ دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور یوں ’’سویرے سویرے ‘‘کئی سچ چھپانے کے لئے جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ اللہ جانے کئی لکھنے اور بولنے والے آخر کیوںہر وقت اپنی پٹاری میں سانپ سنپولے اکٹھے کرتے رہتے ہیں۔ شاید انہیں تماشہ کرنے یا خود نماشہ بننے کا شوق رہتا ہے ۔ ایسے لکھے کا کیا لکھیں ،جومحض منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے لکھا جائے، جو سمجھ سے بالا تر ہو کیونکہ اگر ایک پڑھا لکھا انسان بغیر سوچے سمجھے کچھ لکھے یا بولے اورہربات میں سے کیڑے نکالے تو اسے دیکھت اندھا ہی کہا جا سکتا ہے ۔ آپ پوچھیں گے کہ یہ دیکھت اندھا بھلا کون ہوتاہے تو جناب اس حوالہ سے آپ کو ایک تاریخی واقعہ بتانا انتہائی ضروری ہے ۔ اکبر بادشاہ کا دور تھا شہنشاہ معظم نے ایک دن اپنے مقرب درباری بیربل سے سوال کیا کہ بیربل بتائو’’ دیکھت اندھا‘‘ کون ہوتے ہیں ؟بیربل نے عرض کی آقا اس سوال کا جواب کل دوں گا۔ چنانچہ دوسرے روز جب بادشہ معظم علی ا لصبح سیر کے لیے اپنے محل سے نکلے تو راستے میں بیربل ایک چٹائی بچھائے اپنے پھٹے ہوئے جوتے گانٹھ رہا تھا اور اسکے ارد گرد دس بارہ بندے بیٹھے اسے غور سے دیکھ رہے تھے ۔بادشاہ نے بیربل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ بریبل نے جواب دیا عالی مقام یہ سب دیکھت اندھے ہیں ۔ میں اپنے جوتے گانٹھ رہا ہ تھا ایسے میں یہ سارے لوگ ایک ایک کر کے آئے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ بیربل یہ کیا کر رہے ہو، حالانکہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ میں اپنے جوتے سی رہا ہوں دیکھنے میں بھی اگر ان دکھا ہو تو ایسے میں دیکھنے والا دیکھت اندھا ہی ہوا نا۔ بالکل ان لوگوں کی طرح جو دیکھتے ، بھالتے جانتے بوجھتے اندھے بن جاتے ہیں۔ یہی حال آج کل ہماری سیاست اور صحافت کا بھی ہے۔ میدان سیاست کے شیخو بولنے پہ آتے ہیں تو تمام سرحدیں پارکر جاتے ہیں۔ اسی دشت کے کچھ’’ خان‘‘ بھی ہیں جو بات بے بات ’’میں نہ مانوں‘‘ کی رٹ لگاتے رہتے ہیں اور بلا وجہ بلا جواز ضد پہ اڑ جائیں تو اس حیوان کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں جو ضد میںبڑا ہی مشہور ہے ۔ بیماری میں کوئی بھی مبتلا ہو سکتا ہے اگر وزیر اعظم کو یہ عارضہ لاحق ہو ا تو ان کے لئے بجائے نیک خواہشات کے لوگوں نے چہ مگوئیاں شروع کر دیں۔ دین مبین اسلام تو یہ درس دیتا ہے کہ کوئی بیمار ہو تو اسے شفا یابی کی دعا دی جائے نہ کہ اسے نشانہ ستم بنایا جائے اور اسے تلخ لفظوں کے نشتر چبھوئے جائیں اور جب وہ صحت یاب ہو کر لوٹے تو بجائے اس کا خیر مقدم کرنے کے اس سے الٹے سیدھے سوالات کئے جائیں ۔ وزیر اعظم لندن سے واپس وطن لوٹے تو کچھ دیکھت اندھوں نے سوال کیا کہ آپ کب فعال ہوںگے ۔ وزیر اعظم نے بھی خوب جواب دیا کہ وہ اب بھی فعال ہیں ۔بلا شبہ اچھے فعل اور افعال رکھنے والے ہمہ وقت فعال ہی رہتے ہیں، لیکن جن کے فعل افعال میں فتور ہو وہ فعال رہ کر بھی غیر فعال ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم تو دوران علالت بھی فعال رہے اور قومی امور میں گہری دلچسپی لیتے رہے ۔ تمام معاملات پر ان کی نظر رہی یہی وجہ تھی کہ انہوں نے دوران علاج قومی امور بطریق احسن نمٹانے کے لئے لندن میںا پنا کیمپ آفس بنایا ، انہوں نے اگر ملکی معاملات خوش اسلوبی سے نمٹانے کے لیے اپنا ضروری سٹاف اپنے ہمراہ رکھا تو اس میں حرج ہی کیا ہے مگر یار لوگوں نے اس پر بھی تنقید کی ۔ایکھت اندھوں کو تو موضوعات سخن چاہیں ، سو اُنھوں نے لکھا اور بدستور لکھ رہے ہیں ۔اب ایسے لکھے کا کیا لکھیں جس میں ضابطہ اخلاق کو ہی روند ڈالا جائے۔یہ دیکھت اندے دیکھیں یا نہ دیکھیں ۔اقوام عالم دیکھ رہی ہیں کہ اس وقت وطن پاک کی موجودہ جمہوری حکومت کیا کہ رہی ہے ۔دنیا دیکھ رہی ہے کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے ریاستی دہشت گردی کی انتہا کر دی ہے ، بھارتی سامراج کا مکرو چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے ،ظالم بھارتی درندوں نے کئی بے گناہ لوگوں کو شہید کر دیا ہے ، ایسے میں پاکستان کی موجودہ جمہوری حکومت کا موقف کھل کر سامنے آیا ہے ،پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کر کے اُسے اپنے موقف سے آگاہ کیا ہے ،بھارتی بربریت کی شدید مذمت کی گئی ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ مظلوم کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق اُسکا حق خودارادیت دیا جائے ، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کوئی جمہوری حکومت کھل کر سامنے آئی ہے اور کشمیر جو پاکستان کی شہ رگ ہے کہ تحفظ اور کشمیریوں کے بنیادی حقوق کے لئے آواز بلند کی ہے کیا یہ ان دیکھت اندھوں کو نظر نہیں آرہا، وزیراعظم اور اُنکی حکومت کا یہ اعزاز ہے کہ تمام معاملات اور قومی امور خوش اسلوبی سے نمٹائے جا رہے ہیں وزیراعظم نہ پہلے نہ اب اور نہ کبھی اپنے ملک اور قوم سے غافل رہے ہیں ،وہ دوران علالت بھی ہر معاملہ پر گہری نظر رکھے رہے اور لندن سے واپس آتے ہی انہوں نے وفاقی وزیر خزانہ سے کہا کہ وہ پانامہ لیکس اور دیگر اہم معاملات میں اپوزیشن کو اعتماد میں لیں ،ملک میں تعمیری اور ترقیاتی عمل برق رفتاری سے جاری ہے ، وزیراعظم بذات خود ہر چھوٹی بڑی بات کا نوٹس لے رہے ہیں ، اُدھر ہماری مسلح افواج اپنے فرائض انتہائی خوش اسلوبی سے انجام دے رہی ہیں ،ضرب عضب کی کامیابی دراصل ملک کی عسکری اور سیاسی قیادت کی مشترکہ فتح و نصرت ہے اس لیے جمہوری عمل میں رکاوٹیں ڈالنے سے گریز کیا جائے ،لکھتے وقت صحافتی اصولوں اور ضابطۂ اخلاق کو ملحوظ خاطر رکھا جائے ورنہ تمام ’’ خبر گے‘‘ بے معنی،تمام تحریریں ’’ناتمام‘‘ اور کچھ چہرے ضرور بے نقاب ہوتے رہیں گے ،پھر آپ سویرے سویرے لکھیں ،سر شام لکھیں یا رات گئے۔ تما م باتیں بے معنی اور بے مقصد ہی ہوں گی اور پھر ہم جیسے چند اہل صحافت یہ لکھنے پر مجبور ہونگے کہ ایسے لکھے کا کیا لکھیں ؟
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024