جمعرات، 9 جمادی الثانی 1443ھ، 13 جنوری 2022ء
الہ آباد ٹھینگ موڑ‘ 6 ماہ کے بچے کے خلاف فراڈ کا مقدمہ‘ ایس ایچ او معطل
یہ تو واقعی پولیس کلچر میں ترقی کی نت نئی راہیں کھل رہی ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا مجرم بھی پولیس والوں کی عقابی نگاہوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ قانون کے لمبے ہاتھ ہر مجرم کو گردن سے دبوچ لیتے ہیں۔ چاہے وہ چھ ماہ کا بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ ٹھینگ موڑ الہ آباد میں پولیس نے جس پھرتی کے ساتھ 6 ماہ کے بچے کے خلاف فراڈ کا مقدمہ درج کیا‘ وہ پولیس کی اعلیٰ کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ صاف پتہ چلتاہے کہ بااثر افراد نے اس بچے کے گھر والوں کو دبائو میں لانے کیلئے پولیس کی مدد سے ایسا کیا۔ تماشہ تب لگا جب ماں اس چھ ماہ کے ملزم کو گود میں اٹھائے عدالت میں حاضر ہوئی جس پر ڈی پی او قصور نے فوری ایکشن لیتے ہوئے اس تھانے کے ایس ایچ او کو معطل کر دیا۔ افسوس ڈی پی او نے جلدی دکھائی ورنہ کیا معلوم ہماری پولیس اس چھ ماہ کے ملزم سے فراڈ کے علاوہ نجانے کون کون سی اور وارداتوں کا بھی اعتراف کرا لیتی۔ حد ہوتی ہے بے حسی کی۔ کیا مقدمہ درج کرتے وقت پولیس نے ملزم کی عمر نہیں پوچھی۔ انہیں اس وقت پتہ نہیں چلا یا پھر روپے کی چمک یا بااثر سفارش نے ان کے ہاتھ پائوں اور آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی۔ ایسے واقعات ہمارے ہاں اکثر و بیشتر سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں جس پر سوائے افسوس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
عوام اب بھی مری جانے سے باز نہیں آرہے: شیخ رشید
اسے ہم دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ لوگ اب بھی مری جانے کیلئے مرے جا رہے ہیں۔ مری جانا جرم نہیں مگر وہاں کے لوگوں‘ انتظامیہ‘ تاجروں اور ہوٹل مالکان کا رویہ نہایت افسوسناک ہے جس سے بہتر ہے کہ بندہ مر جائے‘ مری نہ جائے۔ مری میں گزشتہ روز ایک ایسا جی دار بھی پولیس کے ہتھے چڑھا ہے جو خود جیپ میں برف بھر کر سڑکوں پر بکھیرتا تھا۔ جب کوئی گاڑی وہاں جا کر پھنستی تھی تو وہ گاڑی نکالنے کیلئے بھاری معاوضہ لیتا تھا۔ یہ حالت ہے ہمارے نوسربازوں کی ،دو نمبری ذہنیت رکھنے والوں کی۔ ان حالات میں کون مری جانا پسند کرے گا جہاں انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں۔ اب حکومت پنجاب نے بھی ازخود مری میں داخلے پر پابندی میں مزید 6 روز کا اضافہ کر دیا ہے تو کوئی شیخ رشید صاحب سے پوچھے کہ انہیں کہاں سے اطلاع ملی کہ لوگ مری جانے سے باز نہیں آرہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جو وہاںپھنسے ہیں‘ وہ وہاں سے نکلنے کیلئے مرے جا رہے ہیں۔ چیف سیکرٹری پنجاب نے مختلف علاقوں کا دورہ کرکے گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کی کوشش کی ہے۔ مزید کئی اقدامات ہو رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ جب حالات بگڑ رہے تھے‘ تب یہ سب کہاں تھے۔ پنڈی‘ اسلام آباد سے مری زیادہ دور نہیں۔ کم از کم سڑک ہی کھلی رکھی جاتی تو ہزاروں گاڑیاں واپس جا سکتی تھیں مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ یوں ملکہ کوہسار کے حصے میں ایک اور بدنامی لکھ دی گئی۔ سابقہ تجربات کی روشنی میں لوگ پہلے ہی مری والوں سے شاکی ہیں‘ اب تو وہ اور متنفر ہو رہے ہیں۔ وجہ وہی وحشیانہ انسانی رویئے اور بدانتظامی ہے۔
٭٭٭٭٭
مودی کا دورہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا احتجاج کرنے والے سکھوں کیخلاف کارروائی سے انکار
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو آج کل ویسے ہی سکھوں پر تپ چڑھی ہوئی ہے۔ پہلے پنجابی سکھ کسانوںنے نریندر مودی کو راون بنا کر اس کے مصنوعی رعب و داب کا پتلا سرعام نذر آتش کیا اب مودی نے بھارتی پنجاب کا دورہ کرنا تھا جو بھارتی سکھوں نے ناکام بنا کر ہنومان کی دم میں آگ لگا دی ہے جس سے وہ پورے بھارت میں سکھوں کیخلاف نفرت کی آگ لگانے پر تلا ہوا ہے۔ سب سے پہلے مودی نے اپنا غصہ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ چرنجیت سنگھ چھنی پر نکالتے ہوئے انہیں دورے کی راہ میں رکاوٹ بننے والے سکھ کسانوں کیخلاف کارروائی کا کہا مگر افسوس پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے بھارتی وزیر اعظم کی اس بات کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور کہا کہ وہ کسی سکھ یا پنجابی کسان کے خلاف ایکشن نہیں لیں گے۔ ہم نے بڑے پیار سے مظاہرین کو ہٹا کر وزیر اعظم کی ریلی کی راہ ہموار کی تھی۔ اب پورے پنجاب میں سے صرف 700 افراد ان کی سننے آئے تو ہم کیا کریں۔ ہم نے تو 70 ہزار کرسیاں لگائی تھیں مگر پنجاب کے عوام نے وزیراعظم مودی کو لفٹ نہیں کرائی۔ اس بات پر مودی سیخ پا ہیں مگر ان کے جلنے اور کڑھنے سے کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا ایسے میں اب مودی صرف اپنا جی جلا رہے ہیں اس عمر میں ایساکرنے سے صحت پر برا اثر پڑتا ہے ، اس لیے احتیاط ضروری ہے۔
٭٭٭٭٭
ملک میں پہلی بار بیرون ملک انتقال کرنے والے کا جگر پاکستانی مریض کو لگا دیا گیا
مرنے والے اگر اپنی خوشی سے اپنے جسمانی اعضاء عطیہ کرتے ہیں تو اس سے بہت سے لوگوں کا بھلا ہو سکتا ہے۔ کسی کو اس کا جگر لگایا جا سکتا‘ کسی کو گردے‘ کسی کو آنکھیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں مرنے والا گرچہ مر گیا مگر اپنے بعد کئی زندگیوں کو بچا گیا۔ اب ابوظہبی میں انتقال کرنے والے اس پاکستانی کے گردے اور جگر پاکستان لا کر یہاں مریضوں کو لگائے جا رہے ہیں جن میں سے جگر گزشتہ روز ایک پاکستانی کو لگا دیا گیا۔ یہ پاکستان میں اس نوعیت کا پہلا آپریشن تھا جو کامیاب ہوا۔ ہمارے ہاں ابھی تک اعضاء مرنے کے بعد عطیہ کرنے کا رجحان نہیں۔ زیادہ تر لوگ اس حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں‘ لیکن یورپ میں مرنے والوں کی بڑی تعداد نے اپنے اعضاء عطیہ کر دیتی ہے جو دیگر ضرورت مند افراد کو لگائے جاتے ہیں۔ گرچہ یہ ایک مہنگا اور پیچیدہ کام ہے مگر یورپ میں اس کا رواج ہے۔ آنکھوں کے معاملے میں سری لنکا کی طرف سے نابینا افراد کیلئے سالانہ بڑی تعداد میں آنکھیں پاکستان کو عطیہ کی جاتی ہیں۔ جن کے لگانے سے سینکڑوں بے نور آنکھیں دیکھنے کے قابل ہو جاتی ہیں۔ پاکستانی ڈاکٹروں کی یہ ٹیم مبارکباد کے قابل ہے جس نے جگر ٹرانسپلانٹ کا یہ پیچیدہ آپریشن نہایت مہارت سے کرکے ایک انسان کی جان بچائی۔