وزیراعظم کی دل خوش کن باتیں اور عوام کی حالت ِزار
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ گزشتہ تین سال میں بہت سے مسائل سامنے آئے مگر ہم مایوس نہیں ہوئے۔ ہماری کوشش ہے کہ مدینہ کی ریاست لوگوں کے دلوں میں آجائے۔ گزشتہ روز 14ویں انٹرنیشنل چیمبرز کے افتتاحی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں سیاسی مافیاز بیٹھے ہوئے ہیں جو سسٹم کو ٹھیک نہیں ہونے دیتے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سب مہنگائی کی وجہ سے ہی تکلیف میں ہیں لیکن مہنگائی پوری دنیا میں ہے۔ پھر بھی پاکستان دیگر ممالک سے سستا ہے۔ پاکستان میں پٹرول کی قیمت بنگلہ دیش اور بھارت سے بھی کم ہے۔ انکے بقول ہماری برآمدات میں تاریخی اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے مخالفین ہمیں نااہل کہتے ہیں مگر اسی نااہل حکومت نے ملک کو بحران سے نکالا‘ عوام کو بے روزگاری سے بچایا‘ کرونا سے بچایا اور معیشت کو سنبھالا۔ وزیراعظم نے کہا کہ منی بجٹ سے عام آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑیگا۔ مہنگائی کے حوالے سے مافیاز نے افراتفری پھیلائی ہوئی ہے کہ یہ ہو گیا‘ وہ ہو گیا۔ انکے بقول کسی حکومت کو اتنا بڑا خسارہ نہیں ملا۔ اگر سعودی عرب اور چین ہماری مدد نہ کرتے تو پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہوتا۔
بے شک ریاست مدینہ جیسی اسلامی فلاحی مملکت ہی تحریک انصاف اور اسکے قائد عمران خان کا مطمحِ نظر رہا ہے۔ انہوں نے معاشرے میں پھیلی ناانصافی کے تدارک، اقرباء پروری کے خاتمہ، حکمران اشرافیہ طبقات کے اللے تللوں سے قوم کو نجات دلانے اور غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل سے عوام کو خلاصی دلانے کے جذبے کے تحت ہی سیاست کی خاردار وادی میں قدم رکھا تھا اور نئے پاکستان کیلئے انکی 22 سال کی جدوجہد کی بنیاد پر عوام نے 2018ء کے انتخابات میں انہیں وفاقی اور صوبائی حکمرانی کا مینڈیٹ دیا۔ انہوں نے بطور اپوزیشن لیڈر جس طرح وراثتی سیاست و قیادت اور مسلط کردہ ’’سٹیٹس کو‘‘ توڑنے کا عزم کیا اور عوام کے روٹی روزگار کے مسائل کے حل کیلئے انہیں امید کی کرن دکھائی اسی بنیاد پر عوام نے کرپشن فری سوسائٹی کیلئے انکے عزم کاساتھ دیا اور اقتدار کا مینڈیٹ حاصل ہونے کے بعد اپنے گوناں گوں مسائل کے فوری حل کیلئے بجا طور پر ان سے توقعات وابستہ کیں مگر شومئی قسمت سے عوام کی ان سے وابستہ توقعات نہ صرف پوری نہ ہو پائیں بلکہ انکے غربت‘ مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل مزید گھمبیر ہو گئے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان کو بدحال معیشت کا سامنا کرنا پڑا جسے اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے پی ٹی آئی حکومت کو سخت مالیاتی پالیسیاں اختیار کرنے کی مجبوری لاحق ہوئی اور ان اصلاحاتی اقدامات کے دوران ہی دوسرے ممالک کی طرح پاکستان بھی کورونا وبا کی لپیٹ میں آیا جس نے قومی معیشت کا انجرپنجر ہلا دیا تاہم پی ٹی آئی حکومت کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اسے معیشت کو سنبھالنے کیلئے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے خاطرخواہ مالی معاونت حاصل ہو گئی جس کا وزیراعظم نے گزشتہ روز بھی اعتراف کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ سعودی عرب اور چین مدد نہ کرتے تو ملک دیوالیہ ہو چکا ہوتا تاہم اس مالی معاونت کا براہ راست عوام کوفائدہ پہنچتا ہرگز نظر نہیں آیا اور اسکے برعکس حکومت نے قومی معیشت کو آئی ایم ایف کی شرائط کے ساتھ باندھ کر غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مارے عوام کو آئے روز مہنگائی کے سونامیوں کی جانب دھکیلنا شروع کر دیا۔
اس وقت سب سے زیادہ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم کے علاوہ حکومتی وزیر و مشیر بھی ملکی معیشت کو استحکام حاصل ہونے کے داعی ہیں‘ قومی خودمختاری کو بٹہ لگانے والی کڑی شرائط کے عوض حکومت کو آئی ایم ایف کے چھ ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج کی قسط وار ادائیگی بھی ہو رہی ہے، ملکی برآمدات بھی بتدریج بڑھ رہی ہیں‘ کورونا وبا سے عہدہ برأ ہونے کیلئے پاکستان کو خاطرخواہ بیرونی امداد بھی حاصل ہوئی ہے اور سالانہ قومی اور صوبائی میزانیوں میں متعینہ محصولات کے اہداف پورے ہونے کا بھی وفاقی وزیر خزانہ اور ایف بی آر کی جانب سے تواتر کے ساتھ دعویٰ کیا جارہا ہے مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کے جھکڑ چل رہے ہیں اور عام آدمی روزمرہ کے مسائل کی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے جبکہ مرے کو مارے شاہ مدار کی عملی تصویر بنے بیٹھے عوام کو یہ کہہ کر مزید کچوکے لگائے جاتے ہیں کہ پاکستان دیگر ممالک سے آج بھی سستا ہے‘ اس کیلئے متعدد ممالک کے ساتھ پٹرولیم نرخوں کا موازنہ کیا جاتا ہے مگر ان ممالک کے عوام کے طرز زندگی اور انہیں اپنی حکومتوں کی جانب سے ملنے والی مراعات و سہولتوں کا موازنہ کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی جاتی۔
یہ امر واقعہ ہے کہ کورونا وبا نے ترقی یافتہ ممالک کی مستحکم معیشتوں کو بھی جھنجوڑا ہے جس سے وہاں کساد بازاری کی کیفیت پیدا ہوئی مگر ان ممالک نے اپنے عوام کو بے یارومددگار ہرگز نہیں چھوڑا اور انہیں روٹی روزگار کے مسائل سے عہدہ برأ ہونے کیلئے ماہانہ بنیادوں پر خاطرخواہ امدادی رقوم دی جاتی رہی ہیں جبکہ ہمارے ملک میں تو بیرونی امدادی گرانٹس حاصل کرنے کے باوجود انکے ثمرات عوام تک نہیں پہنچنے دیئے گئے اور آئے روز پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس، ادویات کے نرخوں میں اضافہ کرکے اور ضمنی میزانیوں کے ذریعے ان پر انواع و اقسام کے نئے ٹیکس لگا کر بھی انہیں مہنگائی کے بوجھ تلے دبایا جاتا رہا ہے جبکہ مہنگائی بڑھانے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ منی بجٹ کے ذریعے ایک طرف تو مختلف سبسڈیز ختم کرکے اور روزمرہ استعمال کی اشیاء پر سیلز ٹیکس عائد کرکے عوام کیلئے مہنگائی کے مزید دروازے کھولے جا رہے ہیں اور دوسری طرف یہ کہہ کر انکے زخموں پر نمک پاشی کی جاتی ہے کہ منی بجٹ سے عام آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑیگا۔ یقیناً ایسی حکومتی پالیسیوں اور اقدامات سے ہی عوام کے اضطراب میں اضافہ ہوتا ہے اور اپوزیشن کو بھی ہائوس کے اندر سے تبدیلی جیسی سوچ کو پروان چڑھانے کا موقع ملتا ہے جس کا سابق صدر آصف علی زرداری نے گزشتہ روز عندیہ بھی دیا ہے اور اسی طرح اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف نے باور کرایا ہے کہ حکومت اب تک کسی بھی بحران پر قابو نہیں پا سکی۔ حکومت کو بہرصورت اب غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل میں عوام کو ریلیف دیکر انہیں مطمئن کرنا ہوگا بصورت دیگر اسے آئندہ انتخابات میں عوام کے پاس جاتے ہوئے انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔