’’امریکی صدر کی بے بسی ‘‘

واقفان حال سے پہلے یہ جانتے تھے اور اب دنیا پر بھی عیاں ہوگیا کہ امریکی صدر اتنا بے بس ہوتا ہے جسے آئین ،قانون اور فوائد کے شکنجوں سے لیٹ نظام کا پابند رہنا پڑتا ہے ۔ تیسری دنیا کے آمروں کے برعکس نہ تو وہ آئین کی بساط لپیٹنے کی استطاعت رکھتا ہے نہ ہی اسے اپنے آپ کو دوشی دینے کا اختیا ر ہے ۔ یہاں تک کہ اگر وہ اپنے کئی ہزار حامیوں کے ساتھ دارالحکومت پر دھاوابول دے تو بھی اس کے ہاتھ کچھ نہیں آتا ۔ نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن کی کانگریس کے دونوں ایوانوں سے توثیق کے موقع پر ٹرمپ کے حامیوں نے کانگریس کی عمارت یعنی کپیٹل پر دھا وا بولا اور اندر گھس گئے ۔ اس کے نتیجے میں دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس رک گیا ۔ ہنگامہ آرائی کے دوران 4افراد ہلاک ہوئے ، جبکہ واشنگٹن بی سی میں کرفیو نافذ کردیا گیا ۔ مظاہرین پولیس کی جانب سے لگائی گئی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے USکیپٹیل کی عمارت میں داخل ہوگئے۔ کیا وہ ٹرمپ کے حق میں نعرہ بازی کرتے ہوئے صدارتی انتخاب کے نتائج کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کرتے رہے ۔ اس دوران TVپر دکھائے جانے والے مناظر میں امریکی کانگریس کے اراکین کو اپنی نشستوں سے نیچے پناہ لیتے اور آنسو گیس سے بچنے کیلئے گیس ماسک پہنتے دیکھا گیا ۔ بعد میں کپیٹل ہل کی عمارت کو مظاہرین سے خالی کرواکے محفوظ بنالیا گیا اور وہاں 2700سیکورٹی اہلکار تعینات کردیئے گئے ۔ جوبائیڈن نے امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس پر صدر ٹرمپ کے حامیوں کے دھاوے کو بغاوت قرار دیا جب ٹرمپ کے حامی کانگریس کی عمارت میں گھسے تو جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ امریکہ میں جمہوریت پر وہ حملہ ہوا ہے جس کی مثال نہیں ملتی ان کا کہنا تھا کہ میں صدر ٹرمپ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ قومی TVپر آئیں اور اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے آئین کا تحفظ کریں ۔ جوبائیڈن نے کہا کہ کیپٹل ہل میں گھس جانا ، کھڑکیاں توڑنا ، امریکی سینٹ کے دفاتر پر قبضہ کرنا اور منتخب اراکین کیلئے خطرہ بننا احتجاج نہیں ، بغاوت ہے ۔ ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کے کئی اراکین کانگریس میں بھی اس بغاوت سے لا تعلقی ظاہر کی ۔ کانگریس نے بائیڈن کے جیتنے کی توثیق کردی ۔ نائب صدر مائیک ٹنس نے بھی ٹرمپ کا ساتھ دینے سے انکار کردیا ۔ حتیٰ کہ یہ مطالبات بھی سامنے آئے کہ مائیک ٹنس 25ویں آئینی ترامیم کو استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ کو معزول کردیں اور خود ان کی جگہ لے لیں ۔ ان تمام باتوں کے نتیجے میں ٹرمپ کی جانب سے شخصی آمریت اور بغاوت کی کوشش بری طرح ناکام ہوئی ۔ ہوسکتا ہے کہ مستقبل کا تاریخ دان اس بغاوت کی ناکامی کا سہرا اراکین کانگریس اور امریکہ کی جمہوری روایات کے سر باندھے اور ایسا کرنا کچھ زیادہ غلط بھی نہ ہوگا،تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ میں داخلی انتشار پھیلانے کی یہ کوشش اگر ناکام رہی ہے تو اس کا سبب صرف جمہوری روایات نہیں بلکہ امریکہ میں اختیارات کی تقسیم در تقسیم ہے ۔ امریکہ میں صرف کانگریس حکومت اور عدلیہ کے درمیان بھی اختیارات تقسیم نہیں کیے گئے بلکہ ریاستوں کو بھی اختیارات تفویض ہیں ۔ اس کے علاوہ معاشرے کے مختلف ستون اپنے اپنے طریقے سے اختیارات رکھتے اور استعمال کرتے ہیں ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت حالیہ ہنگامہ آرائی کے دوران ٹیوٹر ، فیس بک ، اور یوٹیوب کی جانب سے ٹرمپ پر عائد کی گئی پابندیاں ہیں ۔ ان بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے ٹرمپ کو پیغامات شائع کرنے سے روک دیا ۔ جب بائیڈن نے ٹرمپ کو وضاحت کیلئے کہا تو امریکی صدر نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں ایک مرتبہ پھر صدارتی انتخاب چوری کیے جانے کا الزام دہراتے ہوئے کیپٹل ہل کے اندر اور باہر موجود اپنے حامی مظاہرین سے مطالبہ کیا کہ وہ اب اپنے گھروں کو لوٹ جائیں ۔ ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے کہا کہ مجھے معلوم ہے آ پ تکلیف میں ہیں ۔ مجھے معلوم ہے آپ کو دکھ ہوا ہے ۔ ہم سے الیکشن چرایا گیا ہے یہ ہر کوئی جانتا ہے خاص طور پر دوسری جانب والے ۔ لیکن اب آپ کو گھر جانا ہوگا ۔ ٹویٹر نے صدر ٹرمپ کے اس پیغام کو تنبیہ کے ساتھ جاری کیا اور اسے ٹوئیٹ ہونے سے بھی روک دیا۔ ٹوئٹر نے صدر ٹرمپ کے اکائونٹ کو 12گھنٹے کیلئے لا ک بھی کردیا ہے تاکہ وہ مزید ٹوئٹس نہ کرسکیں ۔ بعد ازاں دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے بھی ٹرمپ پر اسی قسم کی پابندیاں عائد کردیں ۔ حتیٰ کہ امریکی صدر کو ٹوئٹر پر بیان پوسٹ کرنے کیلئے اپنے ترجمان کے اکائونٹس کا سہارا لینا پڑ ا۔ یہ امریکی صدر کے اختیار ا ت کو لگام دینے کی محظ ایک مثال ہے ۔ کانگریس کے دونوں ایوانوں سے ، کردار سے لوگ باخوبی واقف ہیں ۔ امریکہ کا صدر دنیا کا طاقتور ترین عہدیدا ر تصور کیا جاتا ہے لیکن سب سے بے بس بھی وہی ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں شخصی آمریت پنپنے نہیں پاتی ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہاں کی اسٹیبلشمنٹ دنیا بھر کے عوام کا خون چوسنے میں سب سے آگے ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں شخصی آمریت کا سبب اختیارات کا مخصوص عہدے میں مرکوز ہوتا ہے ۔ تیسری دنیا کو اگر آمریت کے حملوں سے بار بار بچنا ہے تو اختیار ات اور طاقت کے مرکز کی تعداد بڑھانا ہوگی ۔ جب تک طاقت کسی ایک شخص یا گروہ کے ہاتھوں میں محدود رہے گی ۔ معاشرہ آمریت کے نقصانات اُٹھاتا رہے گا ۔ ضروری نہیں کہ یہ آمریت کسی باوردی حکمران کی جانب سے مسلط کی جائے بلکہ کوئی بھی شخص بغیر روک ٹوک فیصلے کرنے کا اختیار حاصل کرلے وہ آمر بن جاتا ہے ۔ امریکہ کی خوش قسمتی ہے کہ اس کا صدر کافی حد تک بے بس ہے ۔ اگرچہ 20جنوری 2021ء میں چند روز باقی ہیں لیکن صدر ٹرمپ اپنا عہدہ بچانے کیلئے ہر وہ حربہ استعمال کررہے ہیں جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ انہیں اندازہ ہے کہ صدر کے عہدے سے محروم ہونے کے بعد یہ درجنوں مقدمات سائے کی طرح ان کا پیچھا کریں گے اور یہ ایک بے اختیار عام آدمی کی طرح مقدمات کا سامنا کریں گے ۔ یادرہے ! رواں ماہ 21جنوری کو صدر ٹرمپ با اختیار سے بے اختیار بن جائیں گے۔