بدھ ‘ 28؍ جمادی الاوّل 1442ھ‘ 13؍ جنوری 2021ء
پنجاب اسمبلی میں عمر ایوب اور فیصل واوڈا سے استعفوں کی قرارداد جمع
ہمارے ہاں ذرا بھر بھی صبرو قرار باقی نہیں رہا۔ جہاں فوری طور پر ردعمل سامنے آجاتا ہے۔ ابھی تک سرکاری سطح پر بجلی کے اچانک خوفناک طویل بریک ڈائون کے حوالے سے تحقیقات کی کوئی رپورٹ سامنے نہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکے کہ اس بلائے ناگہانی کی وجہ کیا تھی۔ اپوزیشن نے بنا سوچے اور سمجھے اس وبال کی ذمہ داری عمر ایوب اور فیصل واوڈا کے سر ڈال دی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں قرارداد جمع کرائی ہے جس میں وزیر توانائی عمر ایوب اور فیصل واوڈا سے استعفے دینے کا کہا گیا ہے۔ اب بھلا یہ بھی کوئی کرنے کی بات ہے۔ انہوں نے کونسا خود جا کر پورے ملک کی بتی بند کر دی تھی۔ یہ تو محکمہ بجلی کا کام ہے جو اسی کو ساجھے۔ پوچھنا تو ان سے بنتا ہے کہ کیوں بھئی یہ بتی بند کیوں اور کیسے ہوئی۔ حکومت نے فوری طورپر تربیلا بجلی گھر میں تعینات چند ملازمین کو معطل کر دیا ہے۔ گویا ان کی ’’بلی‘‘ چڑھا دی ہے۔ دیکھتے ہیں ان کی قربانی سے کس کس کی جان بچ سکتی ہے۔ ہمارے ہاں ویسے بھی بڑے ہوں یا چھوٹے‘ عوامی مفادات کو زک پہنچانے والے معاملات پر ایکشن کم اور بیان بازی زیادہ ہوتی ہے۔ وزیر توانائی ہو یا مشیر توانائی‘ ان سے نہ تو قربانی طلب کی جاتی ہے نہ وہ ازخود غلطی تسلیم کرتے ہوئے قوم کی جان چھوڑتے ہیں۔
٭٭……٭٭
کارکردگی ثابت کرو اور ٹیم میں واپس آئو: مصباح کا عامر کو پیغام
اگر کارکردگی دکھا کر ٹیم میں رہنے کی شرط ضروری ہے تو کیا نیوزی لینڈ کے خلاف ناکام رہنے والے دورے کے بعد ٹیم میں موجود کھلاڑیوں کو بھی ٹیم سے باہر جانے کی راہ دکھانے کا حوصلہ ہے مصباح الحق میں ۔وہ تو خود کو شکست سے پاکستانی ٹیم کی بدترین کارکردگی سے بری الذمہ قرار دے رہے ہیں۔ یعنی اپنا دامن بچا رہے ہیں۔ اگر کارکردگی دکھانے والوں کو ہی ٹیم میں شامل کرنے کی عادت پی سی بی کے کرتادھرتائوں میں پختہ ہوئی ہوتی تو ہماری کرکٹ ٹیم کی یہ حالت نہ ہوتی۔ پی سی بی کی اپنی کارکردگی عرصہ دراز سے تنقید کی زد میں ہے۔ اس کا بھلا کسی نے کیا نوٹس لیا۔ صرف کھلاڑیوں پر زور دکھانا کہاں کا انصاف ہے۔ پسندوناپسند کی بنیاد پر جہاںٹیم کے کھلاڑیوں کی سلیکشن ہو‘ وہاں اچھی کارکردگی دکھانے والے کھلاڑی بھلا کیا کر پائیں گے۔ فی الحال تو اور کچھ نہیں پی سی بی کے ممبران اور ٹیم کے منیجر اور کوچ کو بھی اس شکست کا ذمہ دار قرار دیکر کوئی ایکشن ہی لیا جائے تو بڑی بات ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ وزیراعظم ازخود پی سی بی کے خلاف ویسے ہی جہاد کا اعلان کریں جیسا کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف کیا ہے تو زیادہ اچھے نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ پھر عامر جیسے کھلاڑی کو ازخود ٹیم میں جگہ مل سکتی ہے۔ کسی کو کچھ کہنا نہیں پڑے گا۔
سبزہ زار سے 10 لاکھ کا مرغا اور مرغی چوری کرنے والے گرفتار
اب تک یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ مرغا اور مرغی کیا فارسی ادب کے ’’سیمرغ‘‘ جیسے نایاب دیولائی پرندے کے خاندان سے ہیں ورنہ اچھے سے اچھا اصیل مرغ اور مرغی کی قیمت عام حالات میں 2 یا 3 ہزار ہوتی ہے۔ خاص الخاص ہوں تو 40 یا 50 ہزار یا بہت ہی خاص ہوں تو لاکھ ڈیڑھ لاکھ تک ان کی قیمت ہو سکتی ہے۔ اب یہ مرغ اور اس کی بیگم مرغی جو جاپانی نسل کی فینسی جوڑی ہے‘ میں اصیل لڑنے والے مرغوں جیسی کوئی خاص صلاحیت بھی نہیں ہو سکتی۔ مرغوں کی لڑائی میں جو گُر اور دائو بیچ ہمارے دیسی اصیل مرغ استعمال کرتے ہیں‘ بھلا وہ یہ جاپانی مرغ کہاں سے لائیں گے۔ اوپر سے یہ ہیں بھی فینسی۔ یہ تو اپنی کھال‘ پر‘ کلغی‘ چونچ اور آنکھوں کی فکر میں بھی غلطاں رہیں گے کہ کہیں انہیں زک نہ پہنچے۔ رہی بات مرغی کی تو جو شور ہماری مرغیاں کٹ کٹ کٹ کٹ کرکے مچاتی ہیں‘ وہ بھلا تہذیب یافتہ فینسی بنی سجی سنوری جاپانی مرغی کیا خاک مچائے گی۔ اس کے باوجود ان کی قیمت اگر 10 لاکھ ہے تو بھئی ان میں واقعی کوئی کمال کی بات تو ضرور ہوگی جس کی وجہ سے یہ چوری ہوئے اور ان کو چوری کرنے والے پکڑے بھی گئے جنہیںجیل بھیج دیا گیا ہے۔ امید ہے مرغا اور مرغی مالکان ان کی تصویر سوشل میڈیا پر ڈال کر خوب داد سمیٹیںگے۔ بس شرط یہ ہے کہ یہ ظالم مرغی چور کہیں انہیں روسٹ بنا کر اڑا نہ چکے ہوں۔
٭٭……٭٭
چینی کمپنی ایک سے زیادہ بار ٹوائلٹ جانے والوں کی تنخواہ میں کٹوتی کرنے لگی
یہ ہوتا ہے کفایت شعار لوگوں کا وطیرہ۔ وہ نہ خود وقت ضائع کرنے کی عیاشی کرتے ہیں نہ کسی کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ دفتری اوقات میں بار بار ٹوائلٹ جانے کے نام پر وقت برباد کریں اور کام میں حرج کا باعث بنیں۔ اگر ایسا ہی کوئی فیصلہ ہمارے ملک میں بھی ہو جائے تو یقین کریں سالانہ اربوں روپے کی تنخواہوں میں کٹوتیوں کے سبب جمع ہو سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو خدا جھوٹ نہ بلوائے ٹوائلٹ کے بہانے‘ سگریٹ پینے کے بہانے‘ کسی سے بات چیت کے نام پر۔ اور تو اور موبائل پر بات کرنے کی آڑ میں ہی لوگ روزانہ کئی گھنٹے آفس ورک چھوڑ دیتے ہیں۔ کسی کو خوف نہیں کہ اس طرح دفتری کام کاج میں کتنا فرق پڑتا ہے۔ لوگوں کے کام کتنے لیٹ ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات تو دفتر سے باہر چائے پینے کیلئے ایک آدھ گھنٹے کی غیرحاضری بُری نہیں تصور کی جاتی۔ کھانے اور عبادات کے وقفے کو بھی جو گرچہ ضروری ہیں‘ شامل کیا جائے اور دفاتر میں لیٹ آنے‘ جلد جانے اور گپ شپ کو بھی شامل کیا جائے تو اوسطاً 3 گھنٹے سے زیادہ روزانہ ڈیوٹی کے اوقات میں ضائع کئے جاتے ہیں۔ اگر تنخواہوں میں کٹوتی کا حکم یہاں بھی نافذالعمل ہوجائے تو ملازمین کی کارکردگی پر اچھا اثر پڑ سکتا ہے۔