خدمت سے عبادت تک

پاکستانی قوم دنیا کی ان پانچ بڑی اقوام میں شامل ہے جو خیرات اور عطیات کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز کے مخیرحضرات قوم کی فلاح و بہبود پرحکومت سے کہیں گنا زیادہ خرچ کرتے ہیں۔
نوے کی دہائی میںچند افراد نے ذاتی سرمائے اورذاتی حیثیت سے ضرورت مندوں کی خدمت کا سلسلہ شروع کیا،اس سلسلے کو الخدمت کا نام دیا گیا۔چند روپوں اور گنتی کے افراد کے ہاتھوں بویا گیا یہ بیج آج ایک تنا ور درخت بن گیا ہے۔جسکی جڑیں کراچی سے خیبر،گوادر سے طورخم تک پھیلی ہوئی ہیں۔الخدمت فاؤنڈیشن نہ صرف وطن عزیز بلکہ شام ،ترکی اور روہنگیا کے پناہ گزینوں کو بھی اپنی خدمات فراہم کر رہی ہے۔ ریسکیو اور ریلیف آپریشنز میں اپنا لوہا منوا چکی ہے۔اس وقت ملک بھر کے ڈیڑھ سوشہروں میںالخدمت کے دفاتر قائم ہیں۔اسکے ساتھ ساتھ نوریجنل دفاتر بھی موجود ہیں۔
جب کبھی زلزلہ ،سیلاب،طوفان یا وبائی امراض جیسی ناگہانی آفات آتی ہیں تویہ اپنے ہمراہ ان گنت تباہ کاریا ںلاتی ہیں۔لیکن الخدمت فاؤنڈیشن نے وطن عزیز پر آنے والی ہر آفت کے سامنے ڈھال بن کر قوم کو سہارا دیا۔ پاکستان میں رضاکاروں کا سب سے بڑا نیٹ ورک رکھنے کے باعث ڈیزاسٹر مینجمنٹ ہمیشہ سے اس کی پہلی ترجیح رہی ہے۔2005ء میں آزاد کشمیراورخیبر پختونخواکے بعض اضلاع میں زلزلے نے قیامت برپا کر دی تھی،ہزاروں افرادملبے تلے دب چکے تھے،لاکھوں افراد شدید سردی میں کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور تھے ،ایسے میں فاؤنڈیشن نے آگے بڑھ کر ملبے تلے دبی ہوئی زندگی تلاش کی ،زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا،لاشوں کی تدفین میں مدد کی،زلزلے کے صرف پانچ سال بعد 2010ء میں قوم کو ایک اور آفت کا سامنا کرنا پڑااس سیلاب نے دوکروڑ سے زائد پاکستانیوں کو متاثر کیا۔ایسے وقت میں بھی الخدمت فاؤنڈیشن پیش پیش رہی۔گزشتہ سال آزاد کشمیر،گلگت بلتستان،بلوچستان اور کراچی میں مختلف قدرتی آفات جیسے زلزلے،لینڈ سلائڈنگ، بارشوں اور برساتی نالوں میںطغیانی وسیع پیمانے پر تباہی کا باعث بنی، اس دوران الخدمت نے راشن پیک تقسیم کئے جبکہ 4 ہزار سے زائدشیلٹر ہومز قائم کئے۔اب وطن عزیز کو کورونا وائرس کی صورت میں ایک وبا کا سامنا ہے۔ موجودہ تشویشناک صورت حال میں بھی الخدمت فاؤنڈیشن اپنے ہم وطنوں کی خدمت میں پیش پیش رہی۔مستحق اور سفید پوش افراد میں راشن اور پکا پکایا کھانا،پی پی ایز کی فراہمی،عوام الناس میں صابن ،سینی ٹائزرزاور ماسکس تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ مساجد، ہسپتالوں، اقلیتی عبادت گاہوں اور دیگر عوامی مقامات پرچراثیم کش اسپرے کا کام کیا گیا۔ الخدمت نے کورونا ریلیف آپریشن پر تقریباََ 2ارب سے زائد کی خطیر رقم خرچ کی جس سے کم و بیش 84لاکھ افراد مستفید ہوئے۔ کورونا وبا کی دوسری لہر کے پیش نظر ’’کاروبار زندگی احتیاط کے ساتھ‘‘ کے سلوگن کے تحت ریلیف آپریشن کا آغاز بھی دیا گیا ہے۔پاکستان میں تھر کا صحرا غربت و افلاس ،بھوک اور پیاس کا استعارہ سمجھا جاتا ہے ،ایسے میں مٹھی تھرپارکر میں جدید طرز کے الخدمت نعمت اللہ خان ہسپتال تھرپارکر کا قیام مقامی افراد کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔
اس کے علاوہ لاہور، کراچی اور پشاور میں کوروناوائرس کی ٹیسٹنگ کی سہولت مارکیٹ سے معیاری اور ارزاں نرخوں پرفراہم کی جارہی ہے۔الخدمت نے سکول نہ جانے والے بچوں کیلئے ملک بھر میں 31چائلڈ پروٹیکشن سینٹرز بنا رکھے ہیں جہاں معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے۔اسی طرح ایسے بچے جن کے والدین تعلیمی اداروں کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہیںان کیلئے 52تعلیمی ادارے قائم کئے۔مستحق نوجوانوں کے تعلیمی اخراجات فاؤنڈیشن نے خود اٹھانے کا فیصلہ کیا اور کم و بیش چار ہزارذہین اور قابل نوجوانوں کو الفلاح سکالرشپ کے تحت تعلیمی معاونت دی۔ الخدمت فاؤنڈیشن نے 70سے زائد سکلز ڈویلپمنٹ سینٹر قائم کر رکھے ہیں۔تعلیمی میدان میںفاؤنڈیشن کی انہی خدمات سے 40ہزار کے قریب طلباء اور طالبات مستفید ہوئے ۔
الخدمت فاؤنڈیشن بلا امتیاز رنگ و نسل،مذہب و فرقہ اور جنس انسانیت کی خدمت کرتی ہے۔
الخدمت فاؤنڈیشن کی ریلیف سرگرمیوں کی یہ چند ہی مثالیں پیش کی جاسکی ہیں، کراچی سے گوادر، تفتان سے بلتستان تک ایسے سینکڑوں منصوبے، ہزاروں امید کے چراغ، لاکھوں کامیابیوں کے دئیے روشن کئے گئے ہیں، جنہیں ایک مضمون میں سمونا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے،
الخدمت کی فلاحی سرگرمیوں کا حسن وطن عزیز کے وہ مخیر افراد ہیں جو خاموشی کیساتھ اور اعلانیہ بھی فاؤنڈیشن پر اعتماد کر کے عطیات دیتے ہیں۔ جو سمجھتے ہیں کہ ان کی جانب سے دیا گیا ایک ایک روپے کا عطیہ بہرصورت اسکے حقدار تک پہنچے گا۔ الخدمت فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں کا حصہ بننا یقینا پاکستان کے احسانات کا بدلا چکانے جیسا ہے۔ کیونکہ اس ارض پاک نے ہمیں پہچان دی، ہمیں سائباں فراہم کیا، ہمارے لئے سکون و راحت کا انتظام کیا اور اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اسکی گود کو رنگ اور امنگ سے بھر دیں، اسکے ماتھے پر کامیابی و کامرانی کے ستارے سجا دیں، تاکہ وطن عزیز میں کوئی محروم تمنا نہ رہے، کوئی شہری ہاتھ پھیلانے کو مجبور نہ ہو، اس دیس کا کوئی باسی غربت و افلاس، مصائب و آفات، بھوک اور پیاس کے ہاتھوں قتل نہ ہو، آئیں وطن عزیز کے رہنے والوں کو زندگی کا پیغام دیں اور الخدمت کا ساتھ دیں۔
میں روشنی اور امید کے اداروں اور سہاروںکی طرف قارئین کو متوجہ کرانا اپنا صحافتی مشن سمجھتا ہوں ۔