پی پی پی کے جماعتی انتخابات

آل انڈیا مسلم لیگ کے لیڈروں نے قائد اعظم کو تاحیات صدر بنانے کی پیشکش کی، جسے اول و آخر ڈیموکریٹ قائداعظم نے قبول نہ کیا اور کہا کہ ہر سال مسلم لیگ کی پرائمری لیگیں ان کی کارکردگی دیکھ کر ان کی صدارتی مدت میں اضافہ کیا کریں گی۔ قائد اعظم نے جمہوری اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو پرائمری لیگوں کے سامنے جوابدہ بنایا ۔ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2017ء کیمطابق جب کوئی سیاسی جماعت الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹریشن کیلئے درخواست دیتی ہے تو اسے اپنی درخواست کے ساتھ مرکزی اور صوبائی عہدے داروں کے نام اور کم از کم دو ہزار پارٹی ممبران کے نام کی فہرست دینی پڑتی ہے۔ گویا ہر سیاسی جماعت کو رجسٹریشن سے پہلے اپنے عہدے دار باضابطہ طور پر منتخب کرنے پڑتے ہیں۔ اسکے بعد ہی اسے سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹر کیا جاتا ہے اور وہ عام انتخابات میں حصہ لینے کی اہل قرار پاتی ہے۔ پاکستان کی جمہوریت کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں قابل اعتبار ضابطہ کے مطابق اندرونی انتخابات نہیں کراتیں۔ اس سلسلے میں صرف جماعت اسلامی کا کردار قابل تحسین رہا ہے جبکہ دوسری تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں رسمی کاروائی کرکے اپنے مرکزی اور صوبائی عہدیدار ’’منتخب‘‘کر لیتی ہیں۔ اخباری اطلاعات کیمطابق پاکستان کی بڑی قومی سیاسی جماعت پی پی پی نے اپنے مرکزی اور صوبائی عہدیدار’’منتخب‘‘ کر لیے ہیں جو مزید چار سال کیلئے اپنے عہدوں پر فائز رہیں گے۔ انتخابی نتائج کے مطابق بلاول بھٹو کو پارٹی کا بلا مقابلہ چیئرمین منتخب کر لیا گیا ہے جبکہ سید نیئر بخاری کو سیکرٹری جنرل فیصل کریم کنڈی کو سیکٹری اطلاعات رخسانہ بنگش کو سیکرٹری فنانس منتخب کیا گیا ہے، یہ سب عہدیدار بلامقابلہ منتخب ہوئے ہیں۔ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے مطابق سیاسی جماعتوں پر لازم ہے کہ وہ سیکرٹ بیلٹ پیپر پر مرکزی اور صوبائی عہدیداروں کا انتخاب کریں اور تمام اراکین کو انتخاب لڑنے کے مساوی مواقع دئیے جائیں۔ پارٹی کے نمائندہ اراکین کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ صاف شفاف انتخاب کے ذریعے نہ صرف خود الیکشن لڑ سکیں بلکہ عہدیداروں کا انتخاب بھی کرسکیں۔حیران کن امر یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں عام انتخابات صاف اور شفاف کرانے کا مطالبہ کرتی ہیں اور انتخابات کے دوران عالمی مبصرین کو بھی دعوت دیتی ہیں کہ وہ انتخابی عمل کی مانیٹرنگ کریں تاکہ کہ دھاندلی کے امکانات کو ختم کیا جاسکے اور صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جا سکے مگر جب وہ پارٹی کے اندرونی انتخابات کراتی ہیں تو کسی کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ پارٹی کے عہدیداروں کو کس نے منتخب کیا ہے اور اس کے لیے کیا انتخابی پراسیس اختیار کیا گیا اور کیا آئین اور قوانین کے مطابق جمہوری اصولوں پر عملدرآمد کیا گیا۔ جمہوری اصولوں کا تقاضا یہ ہے کہ جب سیاسی جماعتیں اپنے اندرونی انتخابات کرائیں تو وہ میڈیا کو بلائیں اور اسکی موجودگی میں انتخابی پراسیس مکمل کریں تا کہ پاکستان کے عوام اس انتخابی عمل کو دیکھ سکیں اور اس طرح جمہوری کلچر پروان چڑھ سکے۔ پی پی پی نے اگلے چار سال کیلئے جو عہدیدار منتخب کیے ہیں، ان کیلئے درخواست بھی نہیں مانگی گئی تھی اور نہ ہی باضابطہ طور پر انتخابی عمل کو مکمل کیا گیا ، بس صرف یہ اعلان کردیا گیا کہ مرکزی عہدیداران منتخب ہو گئے ہیں۔ سیاسی جماعتیں عام انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات لگاتی ہیں مگر اپنے گریبانوں میں جھانکنے سے قاصر رہتی ہیں۔ جب جماعتی انتخابات کراتی ہیں تو اس وقت تو انتخابی عمل کے تقاضے پورے نہیں کئے جاتے اور اور ایک مرکزی لیڈر کی مرضی اور منشا کے مطابق مرکزی اور صوبائی عہدیداروں کو نامزد کر دیا جاتا ہے جس کو انتخاب کا نام دے دیا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مکمل آئینی اور قانونی اختیارات حاصل ہیں مگر الیکشن کمیشن کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب بھی آئین اور قانون پر عمل درآمد کا موقع آیا تو الیکشن کمیشن کے اراکین نے غفلت اور مصلحت کا مظاہرہ کیا۔ اگر الیکشن کمیشن اپنے فرائض ادا کرنے پر آمادہ ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنے اندرونی انتخابات آئین اور قانون کے مطابق صاف اور شفاف انداز میں جماعتی انتخاب کرانے کیلئے تیار نہ ہوں۔ الیکشن کمیشن چونکہ اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے اور سیاسی جماعت اس کو اپنے انتخابی عمل کے بارے میں جو بھی رپورٹ دیتی ہے اس کو قبول کر لیتا ہے اور ریکارڈ طلب نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں عہدیداروں کی نامزدگی کیلئے صرف خانہ پوری ہی کرتی ہیں اور آئین اور قانون کے مطابق جمہوری اصولوں پر عمل درآمد کرتی نظر نہیں آتیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جمہوری کلچر جڑ نہیں پکڑ سکا۔ سیاسی جماعتیں خاندانی اور شخصیت پرستی پر مبنی بن کر رہ گئی ہیں۔ غیر سیاسی طاقتور ادارے سیاسی جماعتوں کی اندرونی کمزوریوں کی وجہ سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں جمہوریت کے اصولوں کے عین مطابق یونین کو نسل سے لیکر مرکزتک منظم ہوجائیں اور جماعتوں کے عہدیداروں کو حقیقی معنوں میں اراکین کا پورا اعتماد حاصل ہو تو سیاسی جماعتیں مضبوط اور مستحکم بن سکتی ہیں جن کو چیلنج کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ افسوس پاکستان کے سیاسی لیڈر اپنی سیاسی جماعتوں کو جمہوری اصولوں کے مطابق منظم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے ان کو اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں منظم ہوجائیں تو ان کی اپنی قیادت خطرے میں پڑ سکتی ہے اور پارٹی کا کوئی دوسرا لیڈر چیلنج کر سکتا ہے اور انکے مقابلے میں پارٹی کا انتخاب لڑ کر مرکزی لیڈر بھی بن سکتا ہے۔ جمہوریت کا مذاق ملاحظہ فرمائیے کہ پی پی پی دو جماعتوں میں تقسیم ہوچکی ہے ایک جماعت پی پی پی پارلیمنٹرین کے نام سے الیکشن کمیشن میں رجسٹر ہے جس کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑے جاتے ہیں جبکہ دوسری سیاسی جماعت پی پی پی ہے جس کا بظاہر کوئی عملی اور سیاسی کردار نہیں ہے اسے صرف ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی ورثے کے طور پر قائم رکھا گیا ہے اور اسکے بھی عہدیدار نامزد کر دیے جاتے ہیں جن کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ وہ بلامقابلہ منتخب ہوگئے ہیں۔ الیکشن کمشن میں رجسٹر جماعت پی پی پی پارلیمنٹرین کے چیئرمین آصف علی زرداری ہیں جو بلامقابلہ منتخب ہو چکے ہیں ایک جماعت باپ کے قبضے اور دوسری بیٹے کے قبضے میں ہے۔ یہ ہے وہ جمہوری فریب جس کی بنا پر پارلیمنٹ اپنا وقار کھو بیٹھتی ہے اور ریاست کے اہم ادارے اسے اہمیت نہیں دیتے۔ جب تک جمہوریت کے ساتھ اس قسم کے مذاق ہوتے رہیں گے۔ جمہوریت کبھی مضبوط اور مستحکم نہیں ہو سکے گی اور غیر جمہوریہ ادارے سیاسی جماعتوں کی اس بنیادی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔ پاکستان کے باشعور اور عوام دوست دانشور سیاسی جماعتوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنی جماعتوں کے اندر آئین اور قانون کے مطابق جمہوری اصولوں کی روشنی میں میڈیا کے سامنے پارٹی کے انتخابات کرائیں کریں تاکہ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر جمہوری تماشا ختم ہو سکے اور حقیقی معنوں میں جمہوری کلچر فروغ پا سکے جس میں پاکستان کے تمام عوام کو حقیقی جمہوریت کی وجہ سے پارلیمنٹ میں پہنچنے کے مواقع مل سکیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا میڈیا بھی سیاسی جماعتوں کی اندرونی جمہوریت کی خامیوں اور کمزوریوں کو بے نقاب نہیں کرتا اور اپنی آنکھیں بند رکھتا ہے۔