غیر جانبدار فوج، مولانا کا بندوبست، تمام درست اشاریوں میں مہنگا ہوتا آٹا، چینی، چاول اور گھی!!!!
چینی کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں یاد رہے کہ ابھی جنوری کا آغاز ہے ابھی فروری شروع نہیں ہوا، ابھی مارچ اپریل اور مئی آنا ہے اور چینی سینچری کر چکی ہے۔ جب ہم مئی جون میں ہوں گے اس وقت تک چینی ایک سو دس پندرہ فی کلو یا اس سے بھی مہنگی ہو جائے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مہنگی ہونے کے ساتھ ساتھ چینی کی قلت بھی ہو جائے اور اگر قلت ہوئی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے دیکھنے کو ملے گا۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ کھانے پینے کی تمام اشیاء عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں لیکن تمام اشاریے درست ہیں۔ حیدر آباد میں آٹا اکہتر روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے لیکن حکومت کے معاشی جادوگر بتاتے ہیں کہ تمام اشاریے درست ہیں، گھی مہنگا ہوتا جا رہا ہے لیکن تمام اشاریے درست ہیں۔ حکومت عام آدمی کے مسائل بالخصوص اشیاء خوردونوش کی بلاتعطل مناسب قیمتوں پر فراہمی میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ بدقسمتی ہے کہ 2018 میں قائم ہونے والی حکومت دو ہزار اکیس شروع ہونے کے باوجود عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے ان اشیاء میں ہم خود کفیل تھے لیکن حکومت کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے ہمیں آٹا اور چینی بھی امپورٹ کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔ان صفحات پر اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کے حوالے سے جتنا کچھ لکھا جا چکا ہے اس کے بعد بھی حکومت کی فیصلہ سازی پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ چند ہفتے قبل چینی کی قیمتوں میں کمی پر وزیراعظم عمران خان نے ٹویٹ کر دیا تھا کیا اب وہ چینی کی قیمتوں میں اضافے پر نوٹس بھی لیں گے۔ اسی طرح دیگر اشیاء بھی مسلسل مہنگی ہو رہی ہیں جیسے جیسے وقت گذرے گا مہنگائی میں اضافہ ہو گا کیونکہ حکومتی اقدامات سے اشیاء کی لاگت میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی مہنگی ہوئی ہے، پیٹرول مہنگا ہو رہا ہے ان حالات میں مہنگائی کم ہونے کا صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو اگر وفاقی حکومت کو برا بھلا کہنے سے فرصت ملے تو حیدرآباد میں آٹے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے لیے بھی کچھ کام کریں۔ سب ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہیں کسی کو کوئی پرواہ نہیں عام آدمی کی ذندگی ہر گذرتے دن کے ساتھ کتنی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت کی کارکردگی کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو یہ کہنا پڑا ہے کہ ڈھائی سال گزرچکے وزیروں کو عوامی مسائل حل کرنے کے لیے محنت کی ضرورت ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ ڈھائی سال میں وزراء نے کچھ نہیں کیا وہ صرف جھنڈے والی گاڑیوں اور مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اس کے سوا انہیں نے کچھ کیا ہوتا تو آج وزیراعظم عمران خان کو یہ کہنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ اپنے کام پر توجہ دیں اور اسے میڈیا پر درست انداز میں پیش کریں۔ وزراء کچھ کریں گے تو میڈیا پر پیش کریں گے انہیں میڈیا پر پیش کرنے سے پہلے کام کرنا پڑے گا اور کام کے لیے ان کے پاس بالکل وقت نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو آج بھی اپنے وزرا کو بنیادی باتیں سکھانا پڑ رہی ہیں۔
افواج پاکستان کے کردار کو انتخابی حوالے سے مشکوک بنانے کی کوشش اپنے ہی سیاست دانوں نے کی ہے۔ وہ جو ہر وقت اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں، وہ گروہ جس کے نزدیک جمہوریت کا مطلب صرف اس حکمرانی ہے، وہ گروہ جس کی جمہوریت میں حزب اختلاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہی گروہ ہر وقت اقتدار میں رہنے کا خواہشمند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی انتخابات میں اس گروہ کو عام آدمی اپنے ووٹ سے رد کر دیتا ہے تو پھر وہ اپنی خامیوی کو چھپانے کے لیے سب سے آسان ہدف فوج پر مداخلت کا بیانیہ عوام کے سامنے رکھتے ہیں۔ عام انتخابات کا اپنا ایک نظام ہے تمام سیاسی جماعتیں اسی نظام کے تحت انتخابات میں حصہ لیتی ہیں لیکن نتائج سامنے آنے کے بعد اس نظام کے بجائے افواجِ پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سیاست دانوں کے پاس عوام کی ظرف مسترد کیے جانے کا کوئی جواز نہیں ہوتا، نہ ایسے دلائل ہوتے ہیں کہ وہ عوام کو قائل کر سکیں اس لیے وہ صرف اور صرف اپنی ناکامی چھہانے کے لیے افواجِ پاکستان کو نشانہ بناتے ہیں۔ کہیں کہیں ان کے اس بیانیے میں دشمن ممالک کی آشیر باد بھی شامل ہوتی ہے۔ کہیں کہیں اس بیانیے میں بیرونی دشمنون کا ایجنڈا بھی شامل ہوتا ہے کیونکہ وطن کے دفاع کے ذمہ دار اداروں کو متنازع بنانا پاکستان سے محبت کرنے اور ملکی دفاع کو مضبوط بنانے والوں کا بیانیہ تو نہیں ہو سکتا لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے عوامی سطح پر مسترد کیے جانے کے بعد فوج پر سیاست میں مداخلت کے غیر ضروری الزامات عائد کر رہی ہے۔ بنیادی طور پر ناکام سیاست دان یہ سیاسی مداخلت انتخابی نتائج سے جوڑ رہے ہیں۔ انتخابات میں اگر کہیں گڑبڑ ہوئی ہے، دھاندلی ہوئی ہے یا اس عمل میں کوئی بھی غفلت یا کوتاہی رہ گئی ہے تو اس کے لیے مناسب فورم موجود ہے لیکن اس فورم کو استعمال کرنے کے بجائے فوج کو سیاسی میدان گھسیٹا جا رہا ہے۔ اس طرز عمل کی کسی بھی صورت حوصلہ افزائی تو نہیں کی جا سکتی۔ بدقسمتی ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں اپنے ہی بیانیے کی نفی بھی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ق لیگ کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو فوج کی مداخلت نہیں تھی، پنجاب میں شہباز شریف وزیر اعلیٰ بنے لیکن فوج کی مداخلت نہیں تھی۔ پھر میاں نواز شریف وزیراعظم ان کے بھائی میاں شہباز شریف مسلسل دوسری مرتبہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ بن گئے لیکن فوج کی مداخلت نہیں تھی۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی لیکن فوج کی مداخلت نہیں تھی لیکن پھر دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں نون لیگ کے ہاتھ سے پنجاب اور مرکز نکلا تو اس ناکامی کو فوج کی مداخلت کا نام دے دیا جاتا ہے۔ فوج کی مداخلت ہے لیکن سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے یہ کیسی مداخلت ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنا ہدف حاصل کر لیتی ہیں لیکن پھر بھی الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ حالانکہ گذشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنانے کے لیے فوج کی قربانیاں سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں گذشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے اس حوالے سے اعدادوشمار عوام کے سامنے رکھے ہیں۔ ملک میں معمول کہ زندگی واپس آئی ہے تو وجہ فوج ہی قربانیاں ہیں، ملک کو بم دھماکوں اور دہشت گردوں سے نجات ملی ہے تو وجہ افواج پاکستان کی انتھک محنت ہے، ملک میں کاروبار ترقی کر رہے ہیں تو وجہ فوج کی قربانیاں ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق "خودکش حملوں میں ستانوے فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ دو ہزار چودہ میں کراچی کرائم انڈکس میں چھٹے نمبر پر تھا اور دو ہزار بیس میں امن و امان کی بہتر ہوتی صورتحال کے باعث کراچی کا نمبر ایک سو تین ہے۔ کراچی میں دہشتگردی میں پچانوے، ٹارگٹ کلنگ میں اٹھانوے، بھتہ خوری میں ننانوے اور اغوا برائے تاوان کے واقعات میں بھی اٹھانوے فیصد کمی واقع ہوئی۔ دہشتگردی کے خلاف آپریشن کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو ہزار سات آٹھ میں قبائلی اضلاع میں صرف سینتیس فیصد علاقے پر ریاست کا کنٹرول تھا جب کہ آج تمام اضلاع خیبر پختونخوا کا حصہ بن چکے ہیں۔ دہشتگردی کے بڑے واقعات میں دو ہزار انیس کے مقابلے میں گذشتہ برس پینتالیس فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ دوہزار تیرہ میں سالانہ اوسطاً نوے دہشتگردی کے واقعات ہوتے تھے۔ آج یہ شرح کم ہو کر سالانہ تیرہ پر آ چکی ہے۔ دو ہزار تیرہ میں دہشتگردی کے واقعات میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد چار سو چودہ جب کہ گذشتہ تھی اٹھانوے افراد دہشت گردوں کا نشانہ بنے"۔ جب میں یہ اعداد و شمار یہاں لکھ رہا ہو تو یہ سوچتا ہوں کہ اپنے ہی ملک ہے سیاستدان قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص افواجِ پاکستان کی ان خدمات کا کبھی کر نہیں کرتے۔ کون ہے جو دشمنوں کی گولیوں کا نشانہ بنتا ہے، کون ہے جو اہنی جان وطن پر قربان کرتا ہے کون ہے جو جوانی میں والدین اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر کبھی واپس نہ آنے والے راستے پر چل نکلتا ہے۔ کون ہے جو عمر بھر کے لیے معذوری برداشت کرتا ہے لیکن اف تک نہیں کرتا۔ وہ فوجی ہے جسے ہر وقت سیاست دان برا بھلا کہتے ہیں۔ قرائین کرام گزشتہ تین برسوں کے دوران تین لاکھ اکہتر ہزار ایک سو تہتر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے گئے ان آپریشنز میں بھاری مقدار میں اسلحہ و بارود برآمد کیا گیا ان آپریشنز کا نتیجہ ہے کہ ماضی کی طرح آج پاکستان میں دہشتگردوں کا کوئی بھی منظم بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ کاش کہ میرے ملک کے سیاستدان یہ حقائق بھی عوام کے سامنے رکھیں۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی لوٹ مار کے اعدادوشمار اور بھاری قرضوں کی تفصیلات تو عوام کے سامنے پیش کر سکتی ہیں اس کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کہتے ہیں کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے راولپنڈی آنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ وہ آئیں چائے پانی پلائیں گے ان کی دیکھ بھال کریں گے۔ میرا مشورہ ہے مولانا فضل الرحمٰن کو صرف چائے پانی تک نہ رکھیں بلکہ انہیں حلوہ بھی پیش کریں اور حلوے کی دیگیں بطور تحفہ بھی پیش کریں تاکہ ان کے مریدین بھی سیر ہو کر کھا سکیں۔ مولانا فضل الرحمٰن راولپنڈی کا چکر لگانا چاہتے ہیں انہیں یہاں آنا اتنا پسند ہے تو ان کی مستقل رہائش کا بندوبست کریں امام مسجد و خطیب کی کوئی آسامی خالی ہو تو مولانا کو یہ ذمہ داری دیں وہ سب سے بہتر یہ کام کر سکتے ہیں اس طرح مولانا کو مستقل راولپنڈی میں رہنے کا موقع بھی مل جائے گا۔ ویسے مولانا خود بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے حصے کے حلوے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اب اگر وہ راولپنڈی کی طرف جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ان تجاویز پر عمل کرتے ہوئے مولانا کا یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتا ہے۔ ساری زندگی ہارس ٹریڈنگ کرنے والی نون لیگ کو جب کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی بلکہ انہیں یقین ہے کہ وہ ان ہاؤس تبدیلی نہیں لا سکتے تو انہوں نے اس شرمندگی سے بچنے کے لیے اسے ہارس ٹریڈنگ کا نام دے دیا ہے۔ حالانکہ ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے احسن اقبال کی جماعت نہایت اچھی تاریخ رکھتی ہے۔ احسن اقبال چار سو استعفوں کی بات کر رہے ہیں گذشتہ روز خرم دستگیر فرما رہے تھے کہ استعفے دینا ہدف نہیں ہے آج اسی جماعت کے ایک خود ساختہ ارسطو نے استعفوں کی دھمکی دی ہے پہلے یہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر لیں پھر عوام کے سامنے آئیں کہ اصل میں کیا کرنا چاہتے ہیں۔ نون لیگ اور احسن اقبال کے قریبی دوست حوصلہ رکھیں تبدیلی صرف عام انتخابات کے ذریعے ہی آئے گی اور ان انتخابات کا وقت دو ہزار تیئیس میں ہے اس وقت تک احسن اقبال نئے انتخابات کی تیاری کریں اس وقت اگر انہیں موقع ملے تو الیکشن میں ضرور حصہ لیں۔
چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کہتے ہیں کہ آٹا چینی سکینڈل کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ چیئرمین نیب سے گذارش ہے کہ اس سکینڈل کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے وقت کا تعین کریں۔ اس سلسلہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ اس کیس کو جتنا جلد ہو نمٹایا جائے یہ نہ ہو کہ نیب کیس پر کام کر رہا ہو اور اس دوران ایک اور سکینڈل سامنے آ جائے نیب پہلے سے جاری کیس پر کام کر رہا ہو اور ہر سال ایک نئے کیس سامنے آئے۔ اس لیے اس کام کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اور اس بزنس کو سمجھنے کے بعد تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا جائے۔
سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کہتے ہہن کہ ریاست سوچ نہیں رہی کہ جو تقسیم وہ کرتی جا رہی ہے اس کی کیا قیمت ہو گی اور اس کے وفاق پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ رضا ربانی سلجھے ہوئے سیاست دان ہیں ممکن ہے وہ بہت اچھی سیاسی سوچ رکھتے ہوں لیکن شاید وہ کچھ بھول رہے ہیں۔ تقسیم ریاست نہیں کر رہی بلکہ تقسیم وہ لوگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کا ماضی داغدار ہے۔ جنہوں نے اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا ہے، جنہوں نے ملک کو قرضوں کے جال میں پھنسایا ہے، جن کے غلط فیصلوں کی وجہ سے آج ملک میں غربت و بیروزگاری ہے۔ ریاست تو یقین رکھتی ہے کہ اتحاد ضروری ہے اور ریاست کا اتفاق ہے کہ اب ملک میں کرپشن کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ملکی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ کاش کہ میاں رضا ربانی تقسیم کرنے والوں اور حکومت میں بیٹھ کر دولت کو ضرب دینے والوں کا نام بھی سامنے لے آتے۔