پیر ‘ 17؍ جمادی الاول 1441ھ ‘ 13؍ جنوری2020 ء

لاہور، فیصل آباد ، سرگودھا میں بار الیکشن، کامیابی کی خوشی میں وکلا کی فائرنگ
ویسے تو قانون کی زیادہ سوجھ بوجھ وکلا کو ہی ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہی قانون ہوتا ہے۔ مگر اب لگتا ہے یہ اوڑھنا بچھونا نئے وکلا نے چھوڑ کر قانون کوتوڑنے اور اپنے ہاتھ میں لینے کو وطیرہ بنا لیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ان پر سینئر وکلا کی بھی کسی بات کا اثر نہیں ہوتا یا وہ بھی ان کو سمجھانا چھوڑ چکے ہیں۔ زندگی کے کسی شعبہ میں دیکھ لیں قانون کی خلاف ورزی سب سے زیادہ یہی کالے کوٹ والے کررہے ہوتے ہیں۔ پھر اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے الٹا دوسروں پررعب جھاڑتے پھرتے ہیں۔ نجانے انہوں نے قانون کی تعلیم کہاں سے لی اور انہیں ڈگری کس نے جاری کی ہوتی ہے۔ اگر کوئی عام شہری بچے کی پیدائش، شادی بیاہ، یا منگنی کی تقریب میں آتش بازی کرے یا فائرنگ کرے تو فوراً قانون حرکت میں آتا ہے۔ حرکت میں کیا آتا ہے۔ بھاگتا دوڑتا اس غریب کے سر پر پہنچ جاتا ہے۔ اس پر مقدمہ ہوتا ہے، اسے گرفتار کیا جاتا ہے۔ مگر آفرین ہے اس قانون پر جو عام شہریوں کے لئے تو فوری ایکشن لیتا نظر آتا ہے مگر ان وکلا کوکچھ نہیں کہتا جو سرعام فائرنگ کرتے ہیں۔ آتش بازی کرتے ہیں، انہیں کوئی گرفتار نہیں کرتا اگر کریں تو باقی سیاہ پوش آ کر انہیں بزور طاقت چھڑا لے جاتے ہیں یا فرار کرا دیتے ہیں۔ اب گزشتہ روز مرد و خاتون وکیل کی فائرنگ دیکھ کر تو پنجابی فلموں کی یاد تازہ ہو گئی۔ جس میں ہیرو اور ہیروین اکثر یہی کچھ کرتے نظر آتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
مصری حکومت نے تدفین ٹیکس عائد کرنے کی تردید کر دی
خوش قسمت ہیں مصری عوام جنہیںکم از کم مرنے والے کو سپرد خاک کرتے ہوئے ورثا تدفین ٹیکس کے نام پر بھاری ادائیگی کے خوف سے تحفظ مل گیا۔ اب وہ اطمینان سے اپنے مردے دفنانے میں راحت محسوس کریں گے۔ ورنہ پس مرگ، واویلا کا رواج جو ہمارے ہاں موجود ہے وہاں بھی شروع ہو جاتا۔ حیرت کی بات ہے ہمارے ہاں تدفین پر متعدد اقسام کے ٹیکس نافذ ہیں۔ لیکن پاکستانیوں نے کبھی اس پر ناک بھوں نہیں چڑھائی۔ قبر کی جگہ سے لے کر گورکن کے معاوضہ اور مرنے والے کی اطلاع درج کروانے کے ٹیکسوں کے باوجود وہ زیادہ سے زیادہ یہی تبصرہ کر کے خاموش ہو جاتے ہیں کہ اب تو مرنا بھی مہنگا ہو گیا ہے۔ تدفین کے لیے بھی جیب میں وافر رقم ہونی چاہئے۔ پاکستانی عوام کی ہمت قابل تعریف ہے کہ وہ اپنی طاقت سے زیادہ بوجھ اٹھا کر جیتے ہیں اور مرنے کے بعد ورثا کو زیر بار کر کے قبر میں جگہ پاتے ہیں۔ کاش ہمارے ہاں بھی کوئی ایسا انتظام ہو جائے کہ شہر خاموشاں کے دروازے ہر آنے والے مکین کے لیے مفت وا ہوں اور ورثا نہایت محبت کے ساتھ حقیقی آنسو بہاتے ہوئے اپنے پیاروں کو دفن کر کے کم از کم اخراجات کے خوف سے تو آزاد ہوں۔ لیکن ایسا ہونا محال لگتا ہے یہ مصر تو ہے نہیں جہاں اطلاع پر ہی حکومت خوفزدہ ہو کر ایسی خبروں کی تردید کرتی پھرے۔
٭٭٭٭
نواز شریف نے ووٹ بیچ کر این آر او لیا۔ اعتزاز احسن
اب کس نے کیا بیچا اور کیا نہیں بیچا یہ کہانی عرصہ دراز تک ہماری سیاسی کتابوں میں مری اور چھانگا مانگا کے اسباق کی طرح بطور ریکارڈ دہرائی جائے گی۔ عوام بہترین جج بھی ہوتے ہیں۔ وہ سیاق و سباق کے حوالے سے مضمون بھانپ لیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن) ہی نہیں تمام سیاسی جماعتیں جو الیکشن لڑتی ہیں۔ اس بازار سیاست میں مول تول کرتی رہتی ہیں۔ یہ خرید و فروخت کی عادت اب ہم میں اتنی پختہ ہو گئی کہ ہم بہت کچھ فروخت کرنے سے نہیں شرماتے۔ وہ کہتے ہیں ناں …
اس جہاں اس نگار خانے میں
کون بکتا نہیں زمانے میں
آپ فرمائیں کیا خریدیں گے۔
آخر یہ یکدم حکومت کا نرم ہو جانا۔ نہ نہ کرکے بھی آمادہ ہو جانا بلاوجہ تو نہیں ہے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ ورنہ چوک پر لٹکانے اور بیرون ملک بھجوانے میں بہت فرق ہے جو اندھوں کو بھی بخوبی پتہ چل جاتا ہے۔ اب کوئی کہے یا نہ کہے مانے یا نہ مانے این آر او پر ’’اب گھبراناکیسا جو ہونا تھا وہ ہو گیا‘‘۔ اس لیے اب کو اعتراض کرے یا اعتراف، برا کہے یا بھلا۔ اس سیاسی بازار میں کساد بازاری کا ماحول بالآخر ختم ہونے لگا ہے اور خرید و فروخت میں بہتری آ رہی ہے۔ سوقیانہ زبان میں ہم کہہ سکتے ہیں اب دھندے میں مندا نہیں رہا۔ دھندا چل پڑا ہے۔ پیپلز پارٹی والے بھی تو یہی چاہتے ہیں۔ اب انہیں بھی موقع ملنے والا ہے تو کون کفران نعمت کرے گا۔
٭٭٭٭٭
دنیا کو جنگوں سے بچایا‘ نوبل انعام کا حقدار ہوں: ٹرمپ
اس وقت امریکی صدر جنگل کے بادشاہ ہیں۔ وہ جو چاہیں کہیں‘ جو چاہے کریں۔ ان کو کس نے روکنا ہے۔ اگر وہ خود کو امن کے نوبل انعام کا حقدار سمجھتے ہیں تو پھر جرمنی کے آمر ہٹلر بدرجہ اولیٰ اس انعام کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ ان کے ہاتھوں جتنی دنیا میں تباہی اور بربادی ہوئی‘ فی الحال ٹرمپ جی وہ ریکارڈ توڑ نہیں پائے۔ حالانکہ ریکارڈ ان کا بھی کچھ ایسا بُرا نہیں۔ ان کے دور حکومت میں بھی ان کے احکامات کے مطابق امریکی فوجیوں نے مہلک اسلحہ سے ہزاروں انسانوں کو پیوند خاک کیا ہے۔ شہروں کے شہر کھنڈر بنا دئیے۔ اس کارکردگی سے تو ٹرمپ بھی ہٹلر کے ہم پلہ قرار پاتے ہیں۔ اب اگر تباہی و بربادی پھیلانے والوں کیلئے کوئی نوبل طرز کا انعام ہوتا تو یقین بالیقین وہ ٹرمپ صاحب کو دیا جاتا۔ صرف ایک بار ہی کیوں‘ ان کے تمام مدت صدارت میں ہر سال یہ انعام انہیں ہی ملتا کیونکہ کوئی اور ان کے مقابلے میں دور دور تک نظر میں نہیں جچتا۔ رہا ان کا دعویٰ کہ انہوں نے دنیا کو جنگوں سے بچایا‘ اس کھلے جھوٹ پر تو خود دروغ گوئی نے بھی ان کے لب چوم لیے ہونگے۔ ورنہ اس وقت دنیا میں جہاں جہاں جنگ ہو رہی ہے‘ اس میں سب سے بڑا ہاتھ حضرت ٹرمپ کا ہی ہے۔ اس پر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’کسی کی جان جاتی ہے‘ تمہارا کھیل ہوتا ہے‘‘ شاید یہ سب کچھ ٹرمپ کیلئے بھی ایک کھیل تماشا ہی ہو۔
٭٭٭٭