حکومت معیشت کو ٹھیک کرنا چاہتی ہے لیکن اسے ٹھیک کرنے کے لیے سیاسی عدم استحکام کا دور ہونا ضروری ہے۔ جب تک ملک میں سیاسی عدم استحکام رہے گا معاشی نظام مضبوط نہیں ہو سکتا۔ حکومتی فیصلوں اور روزمرہ کے معمولات کو چلانے کے طریقوں سے سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
اب دیکھیں متحدہ قومی موومنٹ نے وفاقی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ عذر پیش کیا ہے کہ ان کے ساتھ معاہدے پر عملدرآمد نہیں کیا جا سکا۔ متحدہ والے حکومتوں میں آنے اور جانے کے حوالے سے بڑا تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ آتے جاتے رہتے ہیں لیکن کیا ہمیشہ ایسے ہی کام چلے گا۔ اتنا وقت گذرنے کے بعد بھی اگر پی ٹی آئی والے ایم کیو ایم کے ساتھ طے شدہ معاہدے پر عمل نہیں کر سکے تو اس پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ جب آپ یہ جانتے ہیں کہ پارلیمانی نظام حکومت میں آپکو ہر حال میں سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر چلنا ہے اور اس کے بغیر آپکا گذارہ نہیں ہے پھر آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ حکومت کھڑی ہی سیاسی سہاروں پر ہے ان کمزور حالات میں بھی حکومت اس طرح کی فاش غلطیاں کرے کہ اتحادی ہر وقت اس سے ناراض رہیں تو اس میں سراسر قصور حکومت کا ہے کیونکہ اپنے اتحادیوں کے مفادات کا تحفظ اور معاہدوں کی پاسداری حکومت کے ذمے ہے۔ ایم کیو ایم والوں کو دو وزارتیں دینا تھیں جو نہیں دی جا سکیں۔ متحدہ والوں نے واضح کہا تھا کہ ان کا فروغ نسیم سے کوئی تعلق نہیں اور وہ وفاقی کابینہ میں متحدہ قومی موومنٹ کی نمائندگی نہیں کرتے نہ ہی اس وزارت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ حکومت کو بار بار یاد دہانی کروائی گئی، مطالبات رکھے گئے لیکن کسی نے توجہ نہیں دی اب متحدہ والے الگ ہو گئے ہیں تو سب کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔ سب کہہ رہے کہ ان کے مطالبات جائز تھے، تمام جائز مطالبات مانے جائیں گے، تحفظات کو دور کیا جائے گا۔ بھلا پہلے یہ سب سوئے ہوئے تھے جو اب خیال آیا ہے کہ مطالبات پر کام کرنا ہے۔ گذشتہ دنوں متحدہ والوں کو بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت سے الگ ہونے اور حکومت گرانے کا مشورہ دیتے ہوئے سندھ میں وزارتوں کی پیشکش کی تھی۔ حکومت کو اس وقت ہی جاگ جانا چاہیے تھا لیکن اس پیشکش کے بعد بھی ہوائی فائرنگ ضرور ہوئی کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا اور اب اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک اتحادی الگ ہو گیا ہے۔خالد مقبول صدیقی کہتے ہیںکہ مشکل ہوتا جا رہا تھا کہ حکومت میں بیٹھا رہوں، وزارت میں بیٹھنا بہت سارے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اب وفاقی کابینہ میں بیٹھنا بے سود ہے۔ وزارت میں بیٹھنے سے کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ ہم نے حکومت سازی میں اپنا وعدہ نبھایا ہے لیکن ہمارے ایک نقطے پر بھی پیشرفت نہیں ہوئی۔ سندھ کے شہری علاقوں سے مسلسل ناانصافی ہو رہی ہے۔ ان ساری چیزوں کا پیپلز پارٹی کی پیشکش سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے پی ٹی آئی کے ساتھ دو معاہدے ہوئے تھے ایک بنی گالا اور دوسرا بہادر آباد۔
متحدہ کے حکومت سے الگ ہونے کا اعلان پی ٹی آئی کے فیصلہ سازوں کے لیے ایک سبق ہے۔ ہر وقت میڈیا بیان بازی سے حکومتیں نہیں چلتیں۔ گذشتہ دنوں سابق وزیراعظم پاکستان میر ظفر اللہ خان جمالی نے کہا تھا کہ ملک میں سب چور نہیں ہیں اور سب سے محاذ آرائی میں مصروف ہو جائیں گے تو حکومت کیسے کریں گے۔ حکومت سیاسی اقدار اور خود ساختہ تنہائی سے باہر نکل کر اپنے اتحادیوں اور اپوزیشن جماعتوں سے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بامقصد و بامعنی مذاکرات کرے۔ سیاسی فیصلے کرے اور سیاسی طاقتوں کو ان کا جائز حق اور مقام دے۔ متحدہ قومی موومنٹ الگ ہوئی ہے اور بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔اختر مینگل بھی پاکستان تحریک انصاف سے ناراض ہیں۔ وہ صرف پی ٹی آئی ہی نہیں وزیر اعظم عمران خان سے بھی ناراض ہیں۔ ان رویوں کے ساتھ حکومتیں نہیں چلا کرتیں، جتنا عرصہ بھی گذر جائے اسمیں تعمیری کام نہیں ہو سکتا۔ بڑے مقاصد کا حصول ممکن نہیں تھا کیونکہ ہر وقت جوڑ توڑ میں مصروف رہنے سے عدم استحکام کی فضا قائم رہتی ہے اور یہ ہر شعبے پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اسی طرح گذشتہ ہفتے بلوچستان اسمبلی کے سپیکر عبد القدوس بزنجو لاہور آئے تھے انہوں نے صوبے کے وزیر اعلیٰ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت ناکام ہو چکی ہے اور وزیر اعلیٰ صوبے کے معاملات کو بہتر انداز میں چلانے میں ناکام رہے ہیں۔ سندھ سے متحدہ والے حکومت سے لگ ہو جائیں بلوچستان اسمبلی کے سپیکر اپنے وزیر اعلیٰ سے خوش نہ ہوں تو وفاق کو پریشان ضرور ہونا چاہیے۔
اتحادیوں کے سہارے سے قائم حکومت کو چلانے کے لیے تحمل مزاجی اور سیاسی بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی پارلیمنٹ میں اپنے اپنے علاقوں کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے حلقے کے کاموں کے پابند ہوتے ہیں اگر وہ کام نہیں کرواتے تو ان کے لیے حلقوں میں جانا اور عوام کا سامنا کرنا ممکن نہیں ہوتا اور اگر کوئی رکن اسمبلی حکومت میں ہو تو اس سے وابستہ توقعات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے ان کے جائز مطالبات کو ماننا جمہوری نظام کا حسن اور نظام کی بقاء کے لیے ضروری ہے۔ خالد مقبول صدیقی نے بھی کراچی کے حوالے سے بات کی ہے انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ سندھ کے شہری حلقوں سے زیادتی ہو رہی ہے تو ان حالات میں جب وہ بے بس ہو جائیں تو سیاسی کیرئیر بچانے کے لیے انہیں کوئی نہ کوئی فیصلہ تو کرنا ہی تھا۔ بلوچستان کے حوالے سے ایسی سوچ صرف سیاسی کیرئیر بچانے کی نہیں ہے وہاں معاملات سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا سے کہیں زیادہ مختلف، سنجیدہ اور حساس ہیں۔ وہاں کے سینئر سیاست دانوں کا واضح الفاظ میں حکومت کے رویے ہر تنقید اور ناراضی کا مطلب کچھ اور ہوگا۔ وہاں کے عوام کو زیادہ توجہ اور محبت کی ضرورت ہے۔ ایسے حالات میں وہاں یہ پیغام جائے گا کہ ان کی ضرورث صرف حکومت سازی کے لیے تھی۔ یعنی انہیں صرف اقتدار حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا تھا۔ حصول اقتدار کے بعد ان کی ضرورت نہیں رہی تو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان کی حد تک یہ سوچ اور رویہ انتہائی خطرناک ہے۔
ہم نے پانچ جنوری کو انہی صفحات پر اتحادیوں کے مسائل پر بات کی تھی اور اتحادیوں کے مسائل کی نشاندہی کی تھی۔ اس وقت خالد مقبول نے کہا تھا کہ حکومت تو نہیں گرائیں گے لیکن عوام کی نظروں سے بھی نہیں گریں گے۔ اب انہوں نے کم از کم ایک راستہ ضرور اختیار کیا ہے جس میں وہ حکومت کو اپنے پیچھے آنے پر مجبور کریں گے۔ اس مسئلے کے دیرپا حل کے لیے سنجیدہ، بامقصد اور بامعنی مذاکرات اور فوری فیصلوں کی ضرورت ہے۔ بات تسلیوں یا دلاسوں پر ختم نہیں ہو گی۔ جو ایک مرتبہ اتحاد سے علیحدگی اختیار کر سکتا ہے وہ یہ بار بار کر سکتا ہے۔ حکومت سوچ لے کہ بار بار علیحدگی تعلق پر کتنا اثر انداز ہو سکتی ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38