میں سوچتا ہوں کہ اگر میری ملاقات شعیب بن عزیز سے نہ ہوتی تو نہ جانے میں کتنے خوبصورت انسانوں سے نہ مل سکتا۔ شعیب کی وجہ سے میں سب سے پہلے ا سکے والد کوملا۔ وہ ایک دلکش اور میٹھے انسان تھے۔ان سے دوستی کارشتہ قائم ہو ا جو آج بھی ٹوٹ نہیں پایا۔ شعیب بعض اوقات دوستی سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں، پچھلے دنوں وہ اجمل نیازی کی عیادت کو اکیلے گئے ۔پھر یاردلدار مجیب شامی کی عیادت کے لئے۔ ان کی بیماری کی خبر کم لوگوں کو ہے۔ مجھے بھی ایک ہفتے بعد پتہ چلا جب وہ بائی پاس آپریشن کے بعد گھر آ چکے ہیںمگر نہ میں اجمل نیازی سے ملنے جا سکاہوںنہ شامی صاحب کو۔ شعیب ایک عجیب حضرت ہیں ۔ پہلے تو شہر کے ،مشرقی کونے میں رہتے تھے جہاں میں سائیکل پر بھی پہنچ جاتا تھا۔اب انہوںنے شہر کے مغربی کنارے پر ٹھکانہ کر لیا ہے جسے تلاش کرنا میرے لئے ممکن نہیں۔بہر حال انہی شعیب صاحب کی وساطت سے مجھے پنڈی کے ایک ا بھرتے ہوئے شاعر طاہر حنفی سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ یہ کوئی چائے خانہ تھا جس میں طلسمی بتیاں روشن تھیں۔ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنا بھی ممکن نہیں تھا۔ طاہر حنفی نے اپنی شاعری سنائی۔ یہ آزاد نظم تھی،تب نئے شاعر آزاد شاعری سے بسم اللہ کرتے تھے اور نئے استعاروں میں جگنوئوں کی طرح جگ مگ کرتے تھے، طاہر حنفی سے یہ پہلی ملاقات بعد میں کئی ملاقاتوں کا سبب بنی۔ اب کوئی ایک ماہ پہلے انہوں نے مجھے اپنی کتاب گونگی ہجرت ارسال کی ہے اس توقع کے ساتھ کہ میں اس پر حاشیہ آرائی کروں ۔یہ میرے لئے سخت امتحان کی بات تھی۔ اجمل نیازی سے تو پچاس برس سے نیاز حاصل ہے۔ ان پر تو بڑی آسانی سے کالم لکھ مارا۔میں ان کا یہ شعر اکثر گنگناتا ہوں
اتنے چہرے اتنی باتیں اتنی آنکھیں اتنے ہونٹ
اجمل کیا کیا یاد رکھو گے ، کتنی دیر بھلائو گے
اسی طرح شعیب بن عزیز کا ایک شعر ہر کسی کی زبان پر ہے۔
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
مجھے نہیںمعلوم تھا کہ طاہر حنفی بھی ایک بڑا شاعر بن گیا ہے۔ میںنے کتاب کھولی ۔ پہلی نظم حجر ااسود پر ہے۔ عنوان بھی لاجواب اور ذرا ملاحظہ فرمائیے کیا مضمون باندھا ہے
یہ مری سادہ عبادت یہ دھنک سجدہ مرا
میرے اشکوں کے ستارے
جن میں سورج کی تمازت شب کدے کا نور ہے
میں حیرن رہ گیا کہ جدید شاعری کا دامن طاہر حنفی نے کس قدر مالا مال کر دیا ہے۔
اور اس کے ایمان کی معراج یہ ہے
درود جب بھی پڑھا ہے میںنے
دکھوںنے رستہ بدل لیا ہے
میں شاعر ہوتا تو طاہر حنفی کو جی بھر کے داد دیتا ۔ محمود شام ہمارے دور سے شاعر ہے ۔ اس نے طاہر حنفی کی گونگی حیرت کا دیباچہ تحریر کیا ہے اور خوب خوب لکھا ہے، طاہر حنفی کے معاصرین نے بھی اپنے تبصروں میں کہکشائوں کومنور کر دیا ہے۔ چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔
صفدر ہمدانی ’’طاہر حنفی کی شاعری میں ایک شعر کی طاقت‘‘ کے عنوان سے اپنے تاثرات لکھتے ہیں کہ ان کے اپنے دیرینہ ہمدم طاہر حنفی سے ستر کے عشرے سے یاد اللہ ہے جب وہ ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے منسلک تھے۔ صفدر ہمدانی نے جہاں طاہر حنفی سے اپنی دوستی اور محبت کو اجاگر کیا ہے وہاں سوشل میڈیا کے آنے کے بعد شاعری کا جو حال ہوا ہے اس پر بھی گہری روشنی ڈالی ہے۔ طاہر حنفی کے بارے میں انہوں نے سچ لکھا کہ وہ حکومت پاکستان میں بے شک اعلیٰ مناصب پر رہے لیکن اپنے دوستوں کو کبھی نہیں بھولے بلکہ جب بھی ملے دوست کی حیثیت سے ہی ملے۔ صفدر ہمدانی لکھتے ہیں کہ فیس بک پر کٹ پیسٹ اور ڈاکہ ڈالنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور قابل افسوس امریہ ہے کہ یہاں شعر کو شیر لکھنے والے بھی مقبول ترین ہورہے ہیں۔ طاہر حنفی کا نیا مجموعہ کلام گونگی ہجرت اس کی شاعری اور فکری و تخلیقی سفر کا ایک اہم سنگ میل ہے اور اس کی سوچ خیال اور اظہار میں مزید پختگی آ چکی ہے۔ طاہر حنفی صرف شعر کہنے کے لئے مشق سخن نہیں کرتا بلکہ اس سخن گوئی کو اپنی زندگی کا ایک اہم جزو بنا رکھا ہے اور شاعری کو زندگی کی طرح جیتا ہے۔
ٹورنٹو کینیڈا سے نسرین سید نے طاہر حنفی کو ایک شاعر ایک مسافر کے عنوان سے منسوب کیا ہے۔ ان کے مطابق انہوں نے طاہر حنفی کو اعلیٰ عہدے پر فائز ایک ذمہ دار اور دیانتدار افسر اور اپنے اہل خانہ سے بے تحاشہ محبت کرنے والا انسان پایا ہے۔ ان کے مجموعہ کلام گونگی ہجرت میں وہ سب کچھ ہے جو شاعری کی پیاس بجھانے کے لئے درکار ہوتا ہے۔
نیویارک امریکہ سے مقسط ندیم نے ’’گونگی ہجرت‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ کتاب پڑھ کر شاعر کے گہرے عصری شعور کی طرف جگہ جگہ بہت واضح اشارات ملتے ہیں۔ اس کی غزلیں اور نظمیں دونوں اپنے اندر نہ صرف عصری شعور رکھتی ہیں بلکہ آگہی کا نور بھی۔ اس کی شاعری ہجر و وصال کے ذائقوں سے بھی آشنا ہے مگر ساتھ ساتھ اس کے معاشرتی تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہے۔اس کی نظموں میں جگہ جگہ ظلم و استبداد کے خلاف صدائے احتجاج سنائی دیتی ہے۔ گونگی ہجرت نہ صرف اپنے عہد کی سچی نمائندگی کرتا ہوا شعری مجموعہ ہے بلکہ ظاہر و باطن کی کیفیات کا آئینہ دار بھی ہے۔
علی اکبر عباس نے طاہر حنفی کو ’’ہنر میں زندہ شخص‘‘ سے تشبیہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ طاہر حنفی شہرِ نارسا میں رسائی کا جرم کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ گونگی ہجرت کے بارے میں علی اکبر عباس لکھتا ہے کہ وہ پہلی ہجرت تھی۔ مگر آج تک جاری ہے تا قیامت جاری ہے۔ کہیں کہیں عارضی قیام کی منزل آ جاتی ہے مگر مسافر اسے خاطر میں نہیں لاتے۔ ہجرت کا تجربہ ہر شاعر کی اساس بنتا ہے بعض لوگ اسے عشق سے تعبیر کرتے ہیں کہ عشق ہی وہ تجربہ ہے جو شعری اساس کہلاتا ہے مگر میرے نزدیک عشق بھی ہجرت ہے اور اس کے اثرات ہجر سے ظاہر ہوتے ہیں۔ہجرشناس عشق ہی کام آتا ہے اور کام دکھاتا بھی ہے وگرنہ کسی شمار میں نہیں لایا جاتا۔ ماضی کہنے کو تو گزر چکا ہوتا ہے مگر اصل میں وہ مسلسل بیت رہا ہے دل و دماغ پر روح و فکر پر ایک ایسا سحر کار جس سے فرار ممکن نہیں جس کے مقابلے میں حال ہیچ نظر آتا ہے مگر ماضی کا حصہ بنتے ہی خوبیاں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔یہ انسانی کمزوری نہیں بلکہ خاصہ ہے جو آگے بڑھنے کے عمل کو آسان بناتا ہے۔
طاہر حنفی کی گونگی ہجرت ایک نوسٹلجیا کا اظہار ہے ۔ اس کا ایک شعر میرے ٹوٹے خوابوں کا بھی عکاس ہے
بچپن وہ بھول آیا تھا بیری کی چھائوں میں۔
میں اس بیری کے سائے کی تلاش میں مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہوں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024