یورپی یونین نے پاکستان کو مطلع کیا ہے کہ اگر وہ اپنا GSP Plusسٹیٹس برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اُسے دس شرائط پوری کرنا ہوں گی۔ جن میں مغرب کے نکتہ نظر سے عورتوں کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق، این جی اوز کی آزادی، خاص طور پر انسانی حقوق کی این جی اوز، سزائے موت کا خاتمہ، چائلڈ لیبر او رپریس کی آزادی جیسی شرائط خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان میں سے اکثر شرائط کا تجارت کے حوالے سے دوسرے ملک کو سہولیات فراہم کرنے سے کیا تعلق ہے؟ لہٰذا سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مغرب ایسی شرائط کیوں تجویز کرتا ہے اور پاکستان خواہی نخواہی اِن شرائط کو تسلیم کرنے پر آمادگی کا اظہار کیوں کرتا ہے؟ بات بڑی سیدھی سی ہے کہ مغرب کی معیشت بہت مستحکم ہے اور پاکستان معاشی لحاظ سے انتہائی کمزور ،غیر مستحکم بلکہ صحیح تر الفاظ میں دیوالیہ ہونے کو ہے۔د ونوں فریق اپنی اپنی پوزیشن کو سمجھتے ہیں لہٰذا مغرب جائز وناجائز شرائط مسلط کرتا ہے اور کشکول اُٹھائے دربدر ٹھوکریں کھانے والے ہمارے حکمرانوں کو اُنکی شرائط تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نظر نہیں آتا۔ یہی کچھ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے عالمی ادارے کرتے ہیں۔ یہ عالمی ادارے یوں تو تمام غریب اور قرض کے خواہشمند ممالک کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرتے ہیں اور وہ بڑی طاقتیں جن کے پاس فنڈنگ کی وجہ سے اِن عالمی اداروں کا کنٹرول ہے وہ اِن غریب ممالک کو ڈکٹیٹ کرتی ہیں۔ اُن سے سود در سود رقمیں وصول کر کے اُن کا خون بھی چوستی ہیں اور اُن ممالک سے دفاعی اور عسکری مفادات بھی حاصل کرتی ہیں لہٰذا غریب ممالک غریب تر اور کمزور تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور امیر ممالک امیر تر اور مضبوط و مستحکم ہوتے جاتے ہیں البتہ پاکستان کے معاملے میں ان کا رویہ دووجوہات کی بنا پر سخت تر بلکہ سخت ترین ہے۔ پہلی وجہ یہ کہ پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ریاست ہے اور دوسری یہ ہے کہ پاکستان غریب ہونے کے باوجود ایٹمی اثاثہ جات کا حامل ملک ہے۔ وہ اپنی پسماندگی کے باوجود میزائل ٹیکنالوجی میں بڑی پیش رفت کر چکا ہے۔ علاوہ ازیں پاکستانی فوج کی جنگی صلاحیت کو ایک دنیا تسلیم کرتی ہے اور مغرب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اسلامو فوبیا میں بُری طرح مبتلا ہو چکا ہے۔ وہ کسی ایسے اسلامی ملک کو جو ایٹمی قوت کا حامل ہو ہرگز برداشت کرنے کو تیار نہیں لہٰذا مغرب پاکستان میں اسلامی شعائرپر بُری طرح حملہ آور ہے۔
یورپی یونین پاکستان پر جو شرائط عائد کرنا چاہتا ہے ان کا ایک ایک کر کے جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جتنا ممکن ہو سکے پاکستان کو اسلام سے دور کیا جائے۔ عورتوں کے حقوق کا معاملہ سرفہرست ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ عالمی طاغوتی قوتیں سیاسی اور معاشی سطح پر ہم پر غلبہ پا چکی ہیں۔ ہماری مذہبی جماعتیں بھی مغربی جمہوریت پر ایمان رکھتی ہیں اور ہماری معیشت بھی سود سے لت پت ہے۔ مغرب اگرچہ معاشرتی سطح پر بھی ہمارے طرزِحیات میں بہت سی دراڑیں ڈال چکا ہے لیکن اِس لحاظ سے وہ ابھی پوری طرح مطمئن نہیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ جیسی پسپائی ہم نے سیاسی اور معاشی لحاظ سے اختیار کی ہے اس کی بہ نسبت اپنے معاشرتی نظریات یا روایات کو ہم ابھی کسی قدر سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں اگرچہ ہماری گرفت اِس حوالہ سے بھی کمزور پڑتی نظر آ رہی ہے۔ عورت کے حقوق کا جیسا نگہبان اسلام ہے کوئی دوسرا الہامی یا غیر الہامی مذہب نہیں ہے۔ یہ مسلمان ہی نہیں دیانت دار غیر مسلم دانشور اور تجزیہ نگار بھی تسلیم کرتے ہیں۔
بھارت کا سابق وزیراعظم راجیو گاندھی جس کا خاندان اسلام اور پاکستان دشمنی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا اُس نے بھی راجیہ سبھا میں تقریر کرتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ جو حقوق اسلام عورتوں کو دیتا ہے وہ دوسرا کوئی مذہب نہیں دیتا۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب نے حقوق کی آڑ میں عورت کی تذلیل کی ہے، اُسے کمرشل پروڈکٹ بنایا ہے، اُسے شمع محفل بنا دیا ہے۔ یورپ کے عیار مرد نے مساوی حقوق اور شانہ بشانہ زندگی گزارنے کا جھانسہ دے کر گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ عورت پر روزگار کا ناروا بوجھ بھی ڈال دیا جبکہ اسلام نے مرد اور عورت کو اُنکے فطری تقاضوں، اُنکی جسمانی قوت اور ساخت کو مد نظر رکھتے ہوئے اُن کیلئے الگ الگ دائرہ کار مقرر کیا ہے۔ مرد پر معاش اور عورت پر گھر سنبھالنے اور چلانے کی ذمہ داری ڈالی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپی یونین ہو یا امریکہ، عیسائی ہوں یا یہودی سب کو اسلام سے یعنی اللہ تعالیٰ کے احکامات اور فرمودات سے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ عورت کے اصل حقوق ہیں کیا؟ جہاں تک اقلیتوں کے حقوق کا تعلق ہے تو اس بات پر قسم اُٹھائی جا سکتی ہے کہ نائن الیون سے پہلے جس قدر اقلیتیں پاکستان میں محفوظ تھیں دنیا کے کسی ملک میں محفوظ نہ تھیں۔ لیکن نائن الیون کے بعد جس طرح دنیا بھر میں خاص طور پر افغانستان اور عراق میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، بستیوں کی بستیاں بارود سے تہس نہس کر دی گئیں۔ مسلمانوں کو مارنے کا انداز ایسا تھا جیسے وہ کیڑے مکوڑے بلکہ اس سے بھی بدتر اور کمتر ہوں۔ امریکہ اور یورپی یونین، کشمیر، فلسطین اور میانمار کی طرف توجہ دیں اور وہاں کی اقلیتوں کا حال پوچھیں جہاں ریاستی دہشت گردی اور قتل و غارت سے انسانی المیے جنم لے رہے ہیں۔خود مغربی ممالک کا انسانی حقوق کے حوالے سے ریکارڈ نہایت بُرا ہے۔
ایک شرط سزائے موت ختم کرنے کی بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ تجارتی مراعات دینے یا نہ دینے سے سزائے موت ختم کرنے کا کیا تعلق بنتا ہے؟ ویسے اطلاعاً عرض ہے کہ سزائے موت کا قانون یورپ کے چند ممالک میں اور امریکہ کی بعض ریاستوں میں بھی نافذ ہے اور اُس پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے۔ ان شاء اللہ! یہ کیسا کھلا اور بھیانک تضاد ہے کہ ڈاما ڈولہ میں قرآن پڑھتے معصوم بچوں پر بمباری کر کے شہید کرنیوالوں کو پاکستان کے بچوں کی بڑی پریشانی لاحق ہوگئی ہے۔ اِن قوتوں کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ اسلام بچوں کی نگہداشت، اُنکی حفاظت اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے بڑا حساس ہے۔ یقینا بچوں سے وہی کام لینے چاہئیں جو بچے کر سکیں لیکن مغرب اور اسلام کے تصور بلوغت میں فرق ہے۔ مغرب ہمیں بتاتا ہے کہ 18سال کا لڑکا بالغ ہوتا ہے۔ قرآن پاک ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب آپؑ کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام باپ کا ہاتھ بٹانے کے قابل ہو گئے تب قوی اور مستند روایت کے مطابق اُنکی عمر تیرہ سال تھی۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان جیسے غریب ملک میں تیرہ یا چودہ سال کا بیٹا دو وقت کی روٹی کمانے میں والدین کا ہاتھ بٹاتا ہے تو اِس میں کیا حرج ہے؟ پاکستان میں اِس عمر کے بہت سے بچے تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں اور والد کا ہاتھ بھی بٹاتے ہیں۔ لہٰذا چائلڈ لیبر پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے۔ امریکہ اور یورپ کوئی اور در تلاش کریں۔
ہم نے آغاز میں عرض کیا تھا کہ پاکستان کو اسلامی ایٹمی ملک ہونے کی وجہ سے عالمی قوتیں ٹارگٹ کر رہی ہیں۔ چند سال پہلے تک پاکستان پر ایٹمی رول بیک کیلئے زبردست دباؤ تھا بلکہ دھمکیاں تک دی جا رہی تھیں۔ اب یہ دباؤ کچھ کم ہو گیا ہے اور اسلام کے حوالے سے دباؤ میں بہت شدت آ گئی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ دباؤ کی یہ منتقلی کیوں ہوئی ہے۔ ہماری رائے میں سچی بات یہ ہے کہ ایٹمی مسئلہ پر جتنی شدت سے مغرب کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا تھا پاکستان کی اصل اور حقیقی مقتدر قوت یعنی فوج نے اُتنی ہی شدت سے واضح کر دیا تھا کہ یہ پاکستان کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ہم یہ دباؤ کسی صورت قبول نہیں کرینگے۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ہمارے قول و فعل کا تضاد ہماری کمزوری کی چغلی کھاتا ہے۔ لہٰذا عملی کام کرنا ہو گا۔ ہمیں جواب میں پاکستان میں اسلام کے نفاذ کیلئے نظام مصطفیﷺ کی طرف بڑھنا ہو گا۔ حکومت الٰہیہ قائم کر کے دکھانا ہوگی۔ پاکستان کو حقیقت میں مدینہ کی ریاست کے مثل بنانا ہوگا۔ پاکستان اسلامی فلاحی ریاست بن جائے تو دنیا بھر میں کوئی شرطیں سامنے لانے کی جرأت نہیں کر سکے گااور پاکستان کی پہچان صرف اسلام کے حوالے سے ہو گی ۔ان شاء اللہ
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38